پریس کا مطلب ہے میڈیا اور اس میں کام کرنے والے لوگ یعنی صحافی، فوٹوگرافر، ڈیسک ایڈیٹر، آپریٹر اور دیگر ملازمین، خواہ وہ کسی بھی عہدے پر فائز ہوں، دنیا انہیں صحافی، نامہ نگار اور پترکار کہتی ہے۔ چاہے وہ چھوٹے شہر میں کام کرے یا میٹرو سٹی میں یا ملک میں یا ملک سے باہر کسی غیر ملکی میڈیا میں وہ پھر بھی صحافی ہے۔ ایک صحافی، ایک فوٹوگرافر، ایک ریڈیو کے لیے ایک وائس ریکارڈر، ایک آر جے، یہ تمام میڈیا کے اہلکار عام لوگوں کو ملک و دنیا کی ہر لمحہ کی خبروں سے آگاہ کرتے ہیں۔ کیا کبھی کسی عام آدمی نے سوچا ہے کہ ایک خبر، تصویر، ویڈیو فوٹیج اور اسٹرنگ کلپ کے لیے صحافی کو کتنے خطرات اٹھانے پڑتے ہیں؟خبریں جمع کرنے اور خبریں بنانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ خبریں اور فوٹیج بنانا آسان نہیں ہے۔ خاص طور پر جنگی علاقوں، دہشت گردوں کے ٹھکانوں، کشیدہ ماحول میں غیر متوقع ہجوم، مذہبی جنون یا کسی بھی مذہب یا عقیدے کے جلسہ و جلوسوں میں بھی صحافی اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر خبریں بناتے ہیں اور عام لوگوں کو دنیا میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر رکھتے ہیں۔ میڈیا کے میدان میں غیر متوقع ڈیجیٹل انقلاب کی وجہ سے عام خبروں کو ہی چھوڑ دیں، اب وہ میدان جنگ سے بھی براہ راست نشر کر رہے ہیں۔ اس دوران کئی مقامات پر صحافی اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے اور بعض جگہ خبریں شائع کرنے اور دکھانے پر غصے میں آکر غاصب حکومت نے ان پر جھوٹے مقدمات درج کرکے انہیں جیلوں میں بھی ڈالا اور ان پر جاسوسی اور غداری کا الزام بھی لگایا ہے۔ اس کی مثالیں دنیا کے کئی ممالک میں موجود ہیں۔ ان تمام معاملات کے حوالے سے 3 مئی کو عالمی سطح پر آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے تاکہ کوئی طاقت اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کام کرنے والے صحافیوں کی آواز کو دبا نہ سکے۔ اس کے لیے ایک پریشر گروپ بنایا جاتا ہے تاکہ صحافی میڈیا کے میدان میں بے خوف ہو کر صحافت کر سکیں اور انہیں حکومتی سطح پر آزادی ملے اور ان پر کوئی دباؤ نہ ہو تاکہ صحافیوں کی آزادی برقرار رہے۔ کیونکہ غیر جانبدارانہ صحافت کے لیے آزادی کا ہونا بہت ضروری ہے۔اس مقصد کے لیے ہر سال 3 مئی کو دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔آزادی صحافت کا عالمی دن آزادی اظہار کے حقوق کا احترام کرنے، لوگوں کو ان کے فرائض کی یاد دلانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے منایا جاتا ہے۔ ہر سال مختلف ممالک اس کی میزبانی کرتے ہیں۔ جس میں ہر سال ایک تھیم دی جاتی ہے۔ جس پر سال کے 365 دن کام کیا جاتا ہے۔ دنیا کے صحافیوں کی آزادی اور تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے 1991 میں عالمی رہنما اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک تجویز لائی گئی جس کے دو سال بعد 1993 میں یونیسکو کی جنرل کانفرنس میں صحافیوں کی آزادی کے لیے لائی گئی تجویز کو قبول کر لیا گیا لیکن باضابطہ طور پر اسے 3 مئی 1994کو عالمی یوم صحافت یا آزادی صحافت کا عالمی دن قرار دیا گیا۔اس دن کو منانے کا خاص مقصد دنیا کو آزادی صحافت کی اہمیت سے روشناس کرانا ہے۔ اس کا ایک اور اہم مقصد دنیا بھر کی حکومتوں کو صحافیوں کے آزادی اظہار کے حق کا تحفظ اور احترام کرنے کی یاد دہانی کرانا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ میڈیا جمہوریت کی اقدار کے تحفظ اور بحالی میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے تمام جمہوری حکومتیں میڈیا ہاؤسز اور ان سے وابستہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ یاد رہے کہ ہندوستان میں یہ دن 1948 کے یونیورسل ہیومن رائٹس ایکٹ کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہار رائے کی آزادی کے حق کے احترام اور تحفظ کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ان کے فرائض کی یاد دلانے کے لیے منایا جاتا ہے۔ گزشتہ سال 2024 میں اسی دن یونیسکو نے تشویش کا اظہار کیا تھا کہ اس سال سب سے زیادہ صحافی مارے گئے۔ اس پر گہرائی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ جمہوری حکومت میں میڈیا چوتھا ستون ہوتا ہے اور جمہوریت کی مضبوطی میں اس کا سب سے بڑا حصہ ہوتا ہے۔ اس لیے ریڈیو سے وابستہ صحافیوں، فوٹوگرافر، ویڈیو گرافر، آر جے، آڈیو ریکارڈر، ٹیکنیشین اور میڈیا ہاؤس کے ساتھیوں کو کام کرنے کے لیے اس ملک کی حکومت سے مکمل آزادی ملنی چاہیے۔ ساتھ ہی ان کی حفاظت کی ضمانت بھی اس ملک کی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ میڈیا نہ تو کسی کا دوست ہے اور نہ دشمن، بلکہ وہ دونوں فریقوں کے خیالات پیش کرتا ہے اور آئینے کی طرح حقیقت کو دکھاتا ہے۔ اسی لیے معروف شاعر علام جمیل مظہری میڈیا اور پریس کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’نہ سیاہی کے ہیں دشمن نہ سفیدی کے ہیں دوست، ہم کو آئینہ دکھانا ہے دکھا دیتے ہیں‘‘۔ اس کا مطلب ہے کہ میڈیا اور صحافیوں پر حکومت کی طرف سے بالکل کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ صحافی جمہوریت کا محافظ ہوتا ہے جو اس ملک کے وفاقی ڈھانچے میں توازن برقرار رکھتا ہے تاکہ حکومت خود مختار نہ ہو اور انارکی کو روکا جا سکے۔ آج کے دور میں ہندوستان نئی ٹکنالوجی کے ساتھ عالمی سطح پر میڈیا کے میدان میں بہت آگے ہے اور پوری دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے ممالک کے لوگ ہمارے ملک ہندوستان کی میڈیا ٹیکنالوجی کی نقل کر رہے ہیں۔ لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ دنیا کے 180 ممالک میں بھارت کی میڈیا رینکنگ میں انتہائی خراب پوزیشن ہے۔ 2024 رینک کے مطابق ہندوستان 159 ویں نمبر پر ہے۔ یعنی یہ انتہائی نچلی سطح پر ہے جبکہ سب سے چھوٹے اور پڑوسی ممالک پاکستان اور سری لنکا بھارت سے بہت اوپر ہیں۔ حکومت میڈیا پر اس طرح پابندیاں عائد نہ کرے کہ وہ دنیا میں ہنسی کا سامان بن جائے۔مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھارتی حکومت کو میڈیا کی آزادی کے معیار کے مطابق میڈیا کو آزادی دینی چاہیے تاکہ عالمی سطح پر بھارتی میڈیا کی درجہ بندی تسلی بخش ہو۔ ان دنوں بھارتی اور مغربی میڈیا کو جو طنزیہ نام دیے جا رہے ہیں وہ میڈیا گروپ کے لیے اچھی علامت نہیں ہیں۔ اس کے لیے میڈیا گروپ اور حکومت دونوں کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر مین اسٹریم میڈیا کی آزادی پر حکومتی کنٹرول جمہوریت کے لیے اچھا نہیں ہے کیونکہ آج کے ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا اسٹریم میڈیا سے پہلے بغیر کسی سورس کے خبریں چلا کر سنسنی پھیلا رہا ہے۔ اس سے مین اسٹریم میڈیا کی امیج پر بھی منفی اثر پڑ رہا ہے۔اگرچہ ہندوستان کی سپریم کورٹ سوشل میڈیا کو میڈیا نہیں مانتی، پھر بھی حکومت اور میڈیا گروپس کو آج 3 مئی عالمی یوم آزادی صحافت کے موقع پر اپنے صحافیوں کی آزادی اظہار کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ:- مصنف کا تعلق ریاست بہار کے سیوان ضلع سے ہے۔ یہ حالات حاضرہ اور ہر موضوع پر اپنا مضمون لکھتے ہیں۔ موبائل نمبر 9570404656 اور ای میل enayatsv@gmail.com
(یہ رائٹر کے اپنے خیالات ہیں، ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)۔