نئی دہلی12نومبر: یو پی پی ایس سی کے امتحانات میں نارملائزیشن کو ختم کرنے اور امتحانات ایک دن اور ایک پالی میں لینے کے خلاف طلبا کا احتجاج شدت اختیار کر گیا ہے۔ الہ آباد (پریاگ راج) میں یو پی پی ایس سی دفتر کے سامنے 20 ہزار سے زائد طلبا 25 گھنٹے سے دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ احتجاج کا دوسرا دن قومی ترانے سے شروع کیا گیا اور اس دوران کمیشن کے باہر بڑی تعداد میں پولیس اور پی اے سی اہلکار تعینات رہے۔ صبح کے وقت ضلع مجسٹریٹ اور کمشنر نے احتجاجی طلبا سے بات کرنے کی کوشش کی۔ ڈی ایم نے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے طلبا سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم آپ کے لیے بات چیت کا ایک پلیٹ فارم فراہم کر رہے ہیں، جہاں آپ اپنے نمائندہ وفد کے ذریعے کمیشن کے افسران سے اپنے مطالبات پیش کر سکتے ہیں۔ اس دوران افسران نے بار بار مظاہرہ ختم کرنے کی اپیل کی۔ احتجاج نے بڑی شکل اختیار کر لی ہے اور طلبا کے خلاف پولیس کی کارروائی کے بعد معاملے میں سیاسی گہما گہمی بھی بڑھ گئی ہے۔ پولیس کے لاٹھی چارج کے بعد کانگریس کے سینئر رہنما جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس پر اپنے پیغام میں طلبا پر طاقت کے استعمال کو افسوسناک قرار دیا۔ انہوں نے لکھا کہ یو پی پی ایس سی کی من مانی کے خلاف اٹھنے والی طلبا کی آواز کو توجہ سے سننے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بی جے پی حکومت نے نوجوانوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ اس سے پہلے بھی نوکری کے مطالبات اور بھرتی گھوٹالوں کے خلاف مظاہروں میں طلبا کی آواز کو کچلنے کی کوشش کی جا چکی ہے۔
سماج وادی پارٹی کے سربراہ اور اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے بھی مظاہرین طلبا پر لاٹھی چارج کی مذمت کی۔ انہوں نے ‘ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے ایجنڈے میں روزگار شامل ہی نہیں۔ الہ آباد میں یو پی پی ایس سی میں بدعنوانی کے خلاف طلبا کی جدوجہد نے حکومت کو مشتعل کر دیا ہے اور یوگی حکومت کے خلاف طلبا کا ماحول بن چکا ہے۔ دوسری طرف، اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے بھی ردعمل دیتے ہوئے ‘ایکس پر کہا کہ “تمام اہل افسر طلبا کے مطالبات کو سنجیدگی سے سنیں اور جلد از جلد مسئلے کا حل نکالیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ یو پی پی ایس سی امتحانات میں نارملائزیشن، نجی اداروں کو سینٹر کے طور پر استعمال نہ کرنے اور امتحانات کے طریقہ کار کے حوالے سے طلبا کے خدشات اہم ہیں۔
طلبا کا مطالبہ ہے کہ امتحانات غیر جانبدار اور شفاف ہوں تاکہ ان کی محنت کا احترام ہو اور ان کا مستقبل محفوظ ہو۔