فضول خرچی مسلم معاشرے کا ناسور:مولانا سید مشتاق علی ندوی

0
6

بھوپال:20؍اپریل:ایسا خرچ جو ضروریات زندگی یا مخلوق خدا کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کیاجائے یہ ضروری خرچ ہے البتہ انسانی زندگی میں ضروریات زندگی کے علاوہ دوسری قسم کا خرچ بھی داخل ہوگیاہے، جس کو اسراف کا نام دیاگیا ہے۔ جو خرچ بھی نمودونمائش،نفس کی تسکین، ذوق و شوق کی تکمیل یا سماج میں خود کو بڑا ثابت کرنے کے لئیکیاجائے وہ اسراف اور فضول خرچی کی تعریف میں آتاہے۔
مذکورہ بالا باتیں آج نماز جمعہ سے قبل قاضی شہر حضرت مولانا سید مشتاق علی ندوی مدظلہٗ نے موتی مسجد بھوپال میں نمازیوں کی کثیر تعداد سے خطاب کرتے ہوئے فرمائیں ۔ قاضی صاحب نے فرمایا کہ فی زمانہ یوں تو ہر شخص اس بْرائی میں مبتلا ہے، لیکن وہ ملت جو احکام شریعت اور نظام زندگی رکھتی ہے وہ بھی اس قبیح بْرائی کا شکار نظرآتی ہے۔ آج کل فضول خرچی اور اسراف کے معاملے میں مسابقت ہونے لگی ہے۔ غریب، امیر، شہری، دیہاتی، جاہل، عالم اورمردو عورت سب اس برائی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر وہ بھی اسراف کی راہ پر چل پڑیں تو اس سے زیادہ بدنصیبی اور کیاہوسکتی ہے۔ اخبارات میں برابر تقاریب اور سرگرمیوں کی تفصیلات آتی رہتی ہیں، جن سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے افراد اپنی دولت کو کس طرح بے دریغ خرچ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ شادی بیاہ اورچھوٹی موٹی تقریبات پردولت کو پانی کی طرح بہاناقابل فخر بن گیا ہے۔ روزمرّہ کی زندگی میںبھی اسراف و فضول خرچی عام نظرآتی ہے۔ گھروں کی سجاوٹ، لباس کے اہتمام، سواریوں کی خریداری اور دوسری ضروریات زندگی کی تکمیل میں ہر شخص تفاخر و تکاثر کی راہ پر گامزن نظرآتا ہے۔
کچھ لوگوں کایہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کسی کو دولت سے نوازا ہے تو اسے استعمال کرنے میں اور خاص کر اپنی خوشیوں کو دو بالاکرنے اور اپنے ار مانوں اورآرزوئوں کی تکمیل کرنے میں اور عیش وآرام کے لئے صرف کرنے میں کیا حرج ہے؟ یقینا مال و دولت اللہ کی نعمت ہے، جس کے حاصل ہونے پر ہر شخص کو شکر ادا کرنا چاہئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دولت عطا کرکے کسی فرد کو یہ کامل اختیار نہیں دیاکہ وہ جیسے چاہے خرچ کرے۔ بعض لوگوں کایہ خیال ہے کہ سوائے ناجائز و حرام کاموں کے دیگر امور پر دولت کو جیسے چاہے خرچ کیاجاسکتا ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے اسلام نے دولت کی آمد اور خرچ دونوں پر بندھ باندھا ہے۔ نہ حصول دولت میں حرص و ہوس کی اجازت دی ہے اور نہ خرچ میں بے اعتدالی کی اجازت دی ہے۔بلکہ یہ بات بھی بتادی ہے کہ قیامت کے دن دولت کی آمد و خرچ کے متعلق سوال کیاجائے گا۔ چنانچہ حدیث میں آیاہے کہ قیامت کے دن کسی بنی آدم کے قدم اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک کہ اس سے چار سوال نہ کئے جائیں:عمر کیسے گزاری ؟ جوانی کہاں گزاری؟ مال کہا ںسے کمایا اورکہاں خرچ کیا؟ اورجو کچھ علم حاصل کیاتھا، اس پر کہاں تک عمل کیا؟(ترمذی)
قاضی صاحب نے فرمایا کہ یہ بات ذہن نشیں رکھیں کہ اسلام نے مہمان کی خاطر مدارات سے منع نہیں کیاہے بلکہ مہمان کی توقیر و عزت کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’جو لوگ خدا اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوں، انھیں اپنے مہمانوں کی خاطر تواضع کرنی چاہئے‘ (بخاری ومسلم)
اسی طرح سیرت النبی میں یہ بات ملتی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہمان کو اپنے دسترخوان پر کھانا کھلاتے تو باربار فرماتے ’’اور کھائیے اور کھائیے‘‘اسی طرح قرآن مجید میں فرمایاگیا: ’’اے بنی آدم! ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھائو، پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ سورہ بنی اسرائیل میں فرمایاگیا:’’فضول خرچی نہ کرو فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے‘‘
درج بالا احادیث نبوی اور آیات مبارکہ کے پس منظر میں ہم اپنی تقریبات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگاکہ مہمانوں کی تکریم کے نام پر انواع واقسام کے پکوان کوضروری کرلیاگیا ہے۔ علاوہ ازیں شادی خانوں کی سجاوٹ اور روشنی کے نام پر لاکھوں روپئے خرچ کردیئے جاتے ہیں۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ شادی بیاہ کے پکوانوں ، شادی خانوں کی سجاوٹ، ویڈیو اور فوٹوگرافی ، زرق برق لباس، دلہن کے زیورات و دیگرچیزوں پرمقابلہ آرائی ہونے لگی ہے۔ دعوت ناموں کی چھپائی پر ہی ہزاروں روپئے خرچ کئے جارہے ہیں۔
پیغمبر کائنات ﷺ نے فرمایا کہ ’’بخدا مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ دنیا تم پر اپنا جال پھیلائے گی، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر اس نے پھیلایاتھا تو تم بھی دنیا طلبی میں مقابلہ کرنے لگوگے، جس طرح انہوںنے مقابلہ کرنا شروع کردیاتھا۔ پس وہ تمہیں ہلاک کردے گی، جس طرح تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیاتھا‘‘۔ (بخاری)
دوسری جوچیز فخر و مباہات کا باعث بنتی جارہی وہ شادیوں کے موقع پر ایک سے بڑھ کر ایک اعلیٰ لباس اور زیور ہے۔ ہر شخص اس بات کے لئے کوشاں ہے کہ وہ مشہور زمانہ یا زمانہ کا چلتاہوا جدید فیشن کاحامل لباس زیب تن کرے ، اسی طرح خواتین بھی لباس کے نت نئے انداز اور فلموں یا سیریلوں کے اداکارائوں کے لباس کو اپنانے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں مصروف ہیں۔ زیادہ سے زیادہ زیورات خریدنا، موقع بہ موقع زیورات کو تبدیل کرنا اور ہر تقریب کے مواقع پر نئے زیور کا استعمال کرنا خواتین کی عادت سی ہوگئی ہے۔
اہل ایمان غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں جو کچھ نعمتیں عطا کی ہیں، خاص طورپر جو کچھ دولت عطا کی ہے، اس پر ہر انسان کو قیامت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کرنی ہے۔ چنانچہ سورہ التکاثر میں ارشاد ہے:’’تم سے ضرور ان نعمتوں کے بارے میں قیامت کے دن پوچھاجائے گا’’۔ ظاہر ہے جو شخص اللہ کی نعمتیں پاکر اللہ کی مرضی اور منشاء کے مطابق زندگی گزارے گا وہ اللہ کے محبوب بندوں میں شامل ہوسکے گا اور جو شخص اللہ کی نعمتوں کو تفاخر، نام ونمود اور شہرت وعزت کی طلب میں لگائے گا، اسے ذلّت و رسوائی کاسامنا کرناپڑے گا۔ مال ودولت عطا فرماکر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف دولت مندوں پر زکوٰۃ فرض فرمائی ہے بلکہ محتاجوں، ضرورت مندوں، مسکینوں اورمسافروں کے علاوہ فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا بھی بار بار حکم دیاہے۔ مال و دولت حاصل کرکے آزاد ہوجانا، کیف و سرور کی محفلیں آراستہ کرنا، پارٹیز و کلب پر دولت خرچ کرنا، عا لیشان بنگلوں اور فارم ہائوز میں عیش کوشی کاسامان فراہم کرنا اورتفریح طبع کے لئے دولت کالٹانا کسی بھی صورت میں اہلِ ایمان کے لئے جائز نہیں ہوسکتا۔ دولت عطا کرکے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر چند ذمہ داریاں بھی ڈالی ہیں۔ اگر اہل دولت اللہ او ر رسول کے واضح احکامات کے باوجود اسراف و فضول خرچی میں اپنی دولت صرف کریں گے اور انفاق فی سبیل اللہ سے کترائیں گے تو قیامت کے دن وہ اللہ اور اس کے رسول کو کیا منہ دکھائیں گے؟ اپنی خوشی، بچوں کی خواہش، بیوی کی آرزو، ماں باپ کی تمنا کے نام پر بے مصرف اور فضول امور میںدولت لٹانا احکام الٰہی سے کھلی بغاوت ہے، ایسے افراد شیطان کے راستے کے راہی ہیں بلکہ وہ شیطان کے بھائی ہیں۔ شیطان پر جس طرح اللہ کا غضب ہے، اسی طرح وہ بھی غضب الٰہی کا مستحق بن سکتے ہیں۔