بھرم کھل جائے ظالم تیری قامت کی درازی کا

0
27

دنیا بھر کے عدالتی نظام کی درجہ بندی کرنے والے ادارے عالمی پروجیکٹ برائے انصاف (WJP)نے شفافیت کے اعتبار سے امریکہ کے عدالتی نظام کو دنیا بھر میں 26واں نمبر دیا ہے۔ بھارت 77 اور پاکستان 129 ویں نمبر پر ہے۔ ہمیں اس ادارے اور درجہ بندی پر اعتبار نہیں کہ WJP کے مطابق ڈنمارک اور ناروے فراہمی انصاف اور تحفظِ انسانی حقوق کے معاملے میں بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کے احترام کا یہ عالم کہ ان دونوں ملکوں میں خواتین اور طالبات کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کی اجازت تک نہیں اور پبلک مقامات پر حجاب قابل سزا جرم ہے۔ ڈنمارک کے ایک سیاستدان Rasmus Paludan نے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ترک سفارتخانے کے سامنے قرآن کریم کا نسخہ نذر آتش کیا۔ یہ قدم سفارتی آداب و رکھ رکھاو کی صریح خلاف ورزی تھی کہ سفیروں کو ہراساں کرنا عالمی قانون کے تحت سنگین جرم ہے لیکن پولیس نے راسمس پلوڈن کو مکمل تحفظ فراہم کیا اور اس کے خلاف مظاہرہ کرنے والے نوجوان کو عدالت کی توثیق سے ملک بدر کر دیا گیا۔ بھارت میں اقلیتوں اور مقامی دلتوں (اچھوتوں) کو جس فراوانی سے انصاف مل رہا ہے اس پر تبصرہ غیر ضروری ہے۔ جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، ریاست منی پور میں بدترین فسادات جاری ہیں جہاں دو یہودی عبادت گاہیں اور توریت کے ایک قدیم نسخے کو آگ لگادی گئی۔
ایک غیر ضروری بات سے گفتگو کے آغاز پر معذرت لیکن ’لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی کیا کیجیے‘۔آج ہم امریکی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) کا کچھ ذکر کریں گے کہ بی بی عظمیٰ ان دنوں خبروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔امریکہ کی عدالت عظمیٰ 9 ججوں پر مشتمل ہے جن کا تقرر تاحیات بنیادوں پر ہوتا ہے۔ بیماری و معمولی معذوری کی صورت میں بھی انہیں ہٹایا نہیں جاسکتا۔ ہاں اگر کوئی کسی اخلاقی جرم میں ملوث ہوجائے تو اور بات ہے۔ سنیٹ کی بالادستی امریکی جمہوریت کا سب سے خوبصورت پہلو ہے کہ اس ادارے میں وفاق کی تمام اکائیاں برابر کی حصہ دارہیں۔ اٹارنی جنرل، کابینہ کے ارکان، فوج کے سربراہ، امریکی سفیروں، انٹلیجنس اداروں کے سربراہ، وفاقی اور سپریم کورٹ کے جج، سرکاری کارپوریشنوں کے سربراہوں سمیت تمام اہم تقرریوں کے لیے سنیٹ کی توثیق ضروری ہے۔ ان مناصب کے لیےفرد کا انتخاب صدر کی ذمہ داری ہے۔ سنیٹ تقرری کو مسترد کر سکتی ہے لیکن یہ ادارہ نیا نام تجویز نہیں کرسکتا۔ نامزدگی کا اختیار صدر کو ہے۔مختلف اداروں کی طرح امریکی سپریم کورٹ پر سیاست اور نظریاتی چھاپ بڑی واضح ہے۔ انتخابی تقریروں اور نعروں میں صدارتی امیدوار سپریم کورٹ کو آئین اور عوامی امنگوں کا ترجمان بنانے کا عزم تو ظاہر کرتے ہیں۔لیکن تقرریوں میں نظریاتی وابستگی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ تعیناتی تاعمر ہوتی ہے اس لیے ان نامزدگیوں کے اثرات کئی دہائیوں تک قائم رہتے ہیں۔صدر اوباما کے اقتدار کے خاتمے کے وقت سپریم کورٹ 4 لبرل، 3 قدامت پسند اور ایک دائیں بازو کی طرف مائل متوازن جج پر مشتمل تھا جبکہ قدامت پسند جج جسٹس اینٹوئن اسکیلیا Antonin Scalia کے انتقال کی وجہ سے ایک نشست خالی تھی۔ فروری 2016 میں جب جسٹس اسکیلیا کا انتقال ہوا تو سابق صدر اوباما نے میرک گارلینڈ Merrick Garland کو ان کی جگہ نامزد کیا لیکن سنیٹ کے قائد ایوان مچ میکونل نے موقف اختیار کیا کہ 7 ماہ بعد صدر اوباما کی آٹھ سالہ مدت صدارت پوری ہونے کو ہے لہٰذا نامزدگی نئے صدر کے انتخابات تک ملتوی کردی جائے۔ سنیٹ میں برتری کے زور پر ریپبلکن پارٹی نے مسٹر گارلینڈ کی نامزدگی پر ایوان کی مجلس قائمہ برائےانصاف کے سامنے معاملہ پیش ہی نہ ہونے دیا۔ اس وقت دونوں جماعتیں انتخابی مہم میں الجھی ہوئی تھیں لہٰذا معاملہ ٹل گیا اور صدر ٹرمپ ملک کے صدر بن گئے۔