اس وقت ہمارے ملک میں SC/ST، دلت ،اقلیتوں اور دبے کچلے لوگوں کے حالات بہت زیادہ سنگین اور بد سے بدتر ہو تے جا رہے ہیں۔ یہ حالات بی جے پی پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد کچھ زیادہ ہی خراب ہوگئے ہیں یا یوں کہیں کہ جان بوجھ کر خراب کئے جارہے ہیں۔ ملک میں جگہ جگہ تشدد ہو رہے ہیں۔ قانون اور آئین کو بالائے طاق رکھ کر بر سر اقتدار پارٹی کے رہنما خود مختار بنے ہوئے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ بر سر اقتدار پارٹی زبان حال سے یہ کہہ رہی ہے کہ بھارت میں اب عدالت و کورٹ کی ضرورت نہیں ہے فیصلہ حکومت خود ہی کر لیتی ہے اور اپنی طاقت کا استعمال اپوزیشن کے خلاف کرتی ہے۔
احمد نگر میں سریش رانے عرف مہنت رام گیری مہاراج نے پیغمبر محمد صاحب کی شان میں قابل اعتراض تبصرہ کیا نیز ان کی اہلیہ کے خلاف نازیبا اور توہین آمیز الفاظ استعمال کرکے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی ۔ جس کے خلاف بھارت ے مختلف شہروں کے ساتھ ساتھ مدھیہ پردیش کے چھترپور میں بھی مسلمانوں نے پُر امن طریقے سے احتجاج درج کرانے اور میمورنڈم دینے کی کوشش کی۔ لیکن پولیس بھیڑ کو قابو کرنے میں ناکام رہی۔بھیڑ بے قابو ہوگئی، پتھر پھینکے گئے۔اس کے بعد مدھیہ پردیش حکومت نے یکطرفہ طور پر چھتر پور میں حاجی شہزاد کے گھر پر بلڈوزر چلانا شروع کر دیاحتی کہ اس میں کھڑی گاڑیوں کو بھی نیست و نابود کر دیا۔اگر کسی نے پتھرائو کیا ہے اور قانون اپنے ہاتھ میں لیا ہے تو ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں لیکن سزا دینے کا یہ طریقہ بالکل غلط اور غیر قانونی ہے۔سزا دی جاتی لیکن قانون کے دائر ے میں دی جاتی۔یہ بھارت کے آئین پر بلڈوزر چلانے کے مترادف ہے ۔
اتنا ظلم کرنے کے بعد بھی جب چین نہ آیا تو اتنے پر ہی بس نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کو سڑکوں پر نکال کر ان کی عوامی پریڈ کرائی اور ان سے یہ نعرہ لگوایا کہ: ” پولیس ہماری باپ ہے ”۔ یہ حرکت پولیس پر عوام کے اعتبار کو بالکل ختم کرکے رکھ دیگی جس کا نتیجہ مستقبل میں بہت برا ہوگا۔یہ بات بھی واضح ہے کہ اس جلوس میں کوئی پیشاور مجرم نہیں تھا یہ وہ لوگ تھے جو اپنے مذہب میں عقیدت رکھتے ہیں اور پیغمبر کی محبت میں سڑکوں پر نکلے تھے مگر انہیں مجرم بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔
یہ تمام واقعات کا ہونا نہایت ہی افسوسناک ہے۔ایک سوچ ہے جو ان واردات کو انجام دے رہی ۔جس کو وقت کی حکومت کا مکمل تعاون حاصل ہے کیونکہ پولیس کی موجودگی میں ہندو تو ا پسند لوگ مسلمانوں کے گھروں پر حملے کر رہے ہیں اور ان کے کاروبار کو بر باد کرنے اور اپنے نفرت کے اظہار میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔
خواتین کی عصمت دری ہو ، مآب لنچنگ ہو، پھر پولیس کی حراست میں قتل ہو یا بے گناہوں کے گھروں پر بلڈوزر چلانا ہو، کہیں قبائلی نوجوان پر پیشاب کیا جاتا ہے تو کبھی گھوڑے پر بیٹھنے پرظلم کیا جاتا ہے،یعنی ایس سی ایس ٹی ، دلت اور اقلیتوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور پولیس انتظامیہ اور تمام سیاسی پارٹیاں تماش بین بنی ہوئی ہیں۔
شاید ہی کوئی ایسا صوبہ ہو جہاں ایس سی -ایس ٹی، دلت اور خاص کرکے اقلیت کے لوگ شکار نہ ہو رہے ہو۔مدھیہ پردیش، راجستھان اور مہاراشٹرا کے بیشتر علاقوں میں اقلیتوں کے ساتھ ساتھ دلت و دبے کچلے مظلوم افراد کو مارا پیٹا اور جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔اس ملک کی تہذیب ہمیشہ سے گنگا جمنی رہی ہے۔ لیکن حکومت نے گنگا جمنا تہذیب کی علامت حجاب کے بہانے سے دموہ کے گنگا جمنا اسکول پر بلڈوزر چلوا دیا تھا اور اب چھترپور میں گھر کے ساتھ گاڑیوں کو بھی تہس نہس کر دیا گیا ہے۔کبھی اُجین میں تو کبھی برہانپور میں معصوم لوگوں کو ستایا جارہا ہے۔ یہ محض ایک مخصوص طبقہ کے لئے سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا جارہا ہے۔
ان تمام واقعات کے بعد،اتنے ظلم و تشدد ہونے کے باوجود بھی دیگر سیاسی پارٹیاں خاص طور پر کانگریس وغیرہ نے اس کے خلاف خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔آخر کب یہ سیاسی پارٹیاں کھل کر اس ظلم کے خلاف آواز بلند کریں گی۔ کیا اسے ان پارٹیوں کا دوغلہ پن نہ کہا جائے؟ آخر کب یہ سیاسی پارٹیاں حکمت عملی بنائیں گی۔کیا ان پارٹیوں کو متحد ہوکر جبریہ تشدد کے خلاف مورچہ نہیں کھولنا چاہئے؟
چھترپور میں اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد نہ تو کانگریس کی مرکزی قیادت اور نہ ہی مدھیہ پردیش کے نیتائوں نے نیز تمام دیگر سیاسی سیکولر پارٹیوں کے بڑے بڑے رہنمائوں نے آواز بلند کی ،صرف بھوپال سے کانگریس ایم ایل اے عارف مسعود صاحب نے آواز بلند کی انہوںنے حق بات کہتے ہوئے اپنی پارٹی سے بھی اس خاموشی پر سوال پوچھا، پورے صوبے کے امن پسند لوگوںنے ان کی ہمت افزائی کی لیکن اب ان کے بیان کو برسراقتدار پارٹی کے نیتا غلط بتا رہے ہیں اور غلط الزامات عائد کر رہے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کانگریس مر چکی ہے تو کانگریس میں موجود باضمیر لوگوں کو جاگنا چاہئے اور حق کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔
اس کے علاوہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ مسلم لیڈران جو بی جے پی کی سیوا (خدمت) میں لگے ہوئے ہیں یا یوں کہیں کہ بی جے پی کے اندر ہوتے ہوئے خود کی سیوا کر رہے ہیں۔ یہ تمام بھی ظلم کی کے خلاف آواز اُٹھانے کی زحمت گوارہ نہیں کر رہے ہیں۔کم از کم انہیں تو اپنی طاقت کا ، اپنے پاور کا استعمال کرکے ظلم اور ظالم کے خلاف مورچہ کھولنا چاہئے تھا۔ان کی خاموشی کوئی مصلحتاً نہیں بلکہ بزدلی اور اخلاقی جرأت کا فقدان کہیے کہ منھ پر تالا لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
پورے بھارت میں مذہب سے نفرت کی بنیاد پر عوام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مآب لنچنگ کے شکار ہوئے لوگوں کو ابھی تک انصاف ملا نہیں تھا کہ اب مسلم اقلیتی علاقوں میں مسلمانوں کے گھروں کو اس طرح برباد کیا جارہا ہے۔حالانکہ کچھ ہی دن پہلے دیگر ذات برادری کے لوگوںنے بھی احتجاج کیا وہاں بھی پتھرائو ہوا تھا لیکن ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ایس سی /ایس ٹی نے بھی بھارت بند کے کال پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا لیکن وہاں ایسی کوئی کارروائی دیکھنے کو نہیں ملی۔اتنا ہی نہیں ملک کے کئی شہروں اور جگہوں پر برسر اقتدار پارٹی کے کارکن خاص کرکے آر ایس ایس ، شیوسینا، وِشو ہندو پریشد، بجرنگ دل وغیرہ کے لوگ بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ بھی لگاتے ہیں اور پولیس پر حملہ بھی کرتے ہیں ان پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔حالانکہ بھارت کا آئین لوگوں کے جان اور مال کے تحفظ کی بات کرتا ہے،عوام کو مذہبی آزادی دیتا ہے لیکن یہ بے جی پی حکومت آئین کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور کوئی بولنے والا نہیں ہے یہاں تک کہ عدلیہ بھی خاموش ہے جسے خود اس طرح کے معاملات کو اپنے نوٹس میں لینا چاہئے۔اب بھی وقت ہے ان دبے کچلے مظلوم اقلیتوں، ایس سی /ایس ٹی ، دلتوں کو اپنا سیاسی اور سماجی شعور بیدار کرنا ہوگا اور پہچاننا ہوگا کہ ہمارے اصلی دشمن وہ منووادی اور پونجی وادی عناصر ہیں جو ہر جگہ ، ہر محکمہ ، ہر شعبہ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ملک کو دیمک کی طرح ختم کر رہے ہیں۔اخیر میں بس اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اگر حکو مت انصاف سے کام لیتی اور پیغمبر محمد صاحب نازیبا تبصرہ کرنے والے پر فوری کارروائی ہو جاتی تو شاید آئین کی خلاف ورزی کرنے کی نوبت نہیں آتی ،نہ ہی مظلوموں پر اتنا ظلم و جبر کیا جاتا۔یہ بلڈوز مظلوموں کے گھروں پر نہیں بلکہ بھارت کے آئین پر چل رہا ہے۔جو لوگ سنودھان بچائو کا جھوٹا نعرہ دیتے ہیں آج وہ کہاں جب کھلم کھلا ائین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔بابا صاحب کے سنودھان کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔یہی وہ وقت ہے جب ہر ایک پہچانا جائے گا کہ کون بابا صاحب کے آئین کو مانتا ہے اور کون محض سیاسی فائدے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے سنودھان بچانے کا نعرہ دیتا پھرتا ہیں۔