نئی دہلی6 فروری: سپریم کورٹ نے سروگیسی (کرائے کی کوکھ) کے ذریعے ماں بننے کی ایک 44 سالہ خاتون کی عرضداشت کو خارج کر دیا ہے۔ اس عرضداشت میں سروگیسی ریگولیشن ایکٹ کو چیلنج کیا گیا تھا جس کے مطابق کوئی بیوہ، مطلقہ اور 35 سے 45 سالہ خاتون ہی سروگیسی کرا سکتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ ملک میں شادی کے نظام کا تحفظ کیا جانا چاہئے اور عدالت مغربی ممالک کو آئیڈیل نہیں بنا سکتا جہاں بغیر شادی کے بھی بچے پیدا ہوتے ہیں۔ جسٹس بی وی ناگ رتنا اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ اس عرضداشت پر سماعت کر رہی تھی۔ عدالت نے 44 سالہ تنہا خاتون (سنگل وومن) کے ذریعے داخل عرضداشت پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہاں شادی کے ذریعے ماں بننا ایک ماڈل ہے۔ شادی کے بغیر ماں بننا کوئی ماڈل نہیں ہے۔ ہم اس کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ہم بچے کی پرورش اور اس کی ترقی کے نقطۂ نظر سے بات کر رہے ہیں۔ ایسا کرنے سے ملک میں شادی کا نظام متاثر ہوگا۔ ہم مغربی ممالک کی طرح نہیں ہیں۔ شادی کے سسٹم کا تحفظ کیا جانا چاہئے۔
آپ ہمیں قدامت پسند قرار دے سکتی ہیں اور ہم اسے قبول کرتے ہیں۔‘‘ واضح رہے کہ درخواست گزار خاتون ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتی ہے اور اس نے سروگیسی (ریگولیشن) ایکٹ کی دفعہ 2 (ایس) کے جواز کو چلنج کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ عدالت کی بنچ نے خاتون کو بچہ گود لینے کا مشورہ دیا جسے اس کے وکیل نے یہ کہتے ہوئے نامنظور کر دیا کہ اس کے لیے مدت انتظار کافی طویل ہے۔ عدالت نے کہا کہ 44 سال کی عمر میں سروگیٹ بچے کی پرورش کرنا اور بڑا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ آپ کو زندگی میں سب کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ درخواست گزار تنہا رہنا پسند کرتا ہے۔ ہم سماج اور شادی کے سسٹم کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ہم مغرب جیسے نہیں ہیں جہاں کئی بچے اپنی والدہ اور والد کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ بچے اپنے والدین کے بارے میں جانے بغیر یہاں گھومیں۔‘‘