پھر تیری کہانی یاد آئی … ایم پی اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام ساگر میں سلسلہ اور تلاشِ جوہر کے تحت بیاد اخلاق ساگری اور سلام ساگری، ادبی اور شعری نشست منعقد

0
6

بھوپال:21؍جنوری:(پریس ریلیز)مدھیہ پردیش اردو اکادمی، محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام ضلع ادب گوشہ، ساگر کے ذریعے “سلسلہ اور تلاشِ جوہر ” کے تحت مشہور شعرا اخلاق ساگری اور سلام ساگری کی یاد میں شعری و ادبی نشست کا انعقاد 21 جنوری 2024کو دوپہر 1:00 بجے سرسوتی واچنالیہ، ساگر میں ضلع کوآرڈینیٹر آدرش دوبے کے تعاون سے کیا گیا۔ اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے پروگرام کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مدھیہ پردیش کے مختلف اضلاع میں منعقد ہونے والے ان پروگراموں کا مقصد مقامی شخصیات کی ادبی و سماجی خدمات کو نئی نسل کے سامنے پیش کرنا ہے۔ ساگر میں اخلاق ساگری اور سلام ساگری دونوں ہی ایسے اہم شعرا تھے جن کے فن و شخصیت سے ہمیں تحریک لینے کی ضرورت ہے۔ساگر ضلع کے کوآرڈینیٹر آدرش دوبے نے بتایا کہ منعقدہ ادبی و شعری نشست دو اجلاس پر مبنی رہی. پہلے اجلاس میں دوپہر 1:00بجے تلاش جوہر کا انعقاد کیا گیا جس میں ضلع کے نئے تخلیق کاروں نے فی البدیہہ مقابلے میں حصہ لیا. اس مقابلے میں حکم صاحبان کے طور پر جبلپور کے سینیئر شاعر عرفان جھانسوی اور دموہ کے سینئر شاعرافضل دموہی موجود رہے جنہوں نے نئے تخلیق کاروں کو اشعار کہنے کے لیے دو طرحی مصرعے دیے. ان مصرعوں پر نئے تخلیق کاروں کے ذریعے کہی گئی غزلوں اور ان کی پیشکش کی بنیاد پر حکم صاحبان کے متفقہ فیصلے سے پشپیندر دوبے نے اول، کرانتی جبلپوری نے دوم اور سلطان خان نے سوم مقام حاصل کیا۔ اول دوم اور سوم مقامات حاصل کرنے والے فاتحین کو اکادمی کی جانب اعزازی رقم بالترتیب 3000، 2000 اور 1000 روپے اور سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا ۔
دوسرے اجلاس میں دوپہر 3:00 بجے سلسلہ کے تحت شعری و ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت ساگر کے سینیئر شاعر مایوس ساگری نے کی. ساتھ ہی مہمانان ذی وقار کے طور پر عرفان جھانسوی اور افضل دموہی اسٹیج پر جلوہ افروز رہے۔ نشست کی شروعات میں ساگر کے ادبا و شعراء اشوک مزاج بدر، ڈاکٹر وسیم انور اور آشیش جیوتشی نے مشہور شعرا اخلاق ساگری اور سلام ساگری کے حیات و فن پر گفتگو کرکے انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔اشوک مزاج بدر نے کہا کہ اخلاق ساگری خوددار آدمی تھے۔ اپنی عزت نفس کو ذرا بھی آنچ نہیں آنے دیتے تھے اور سینہ تان کر پورے جوش کے ساتھ شعر پڑھتے تھے اور کبھی داد کے لیے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے. ان کے اشعار عام فہم ہوتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار سنتے ہی لوگوں کی زبان پہ چڑھ جاتے تھے. وہ اپنے انھیں اشعار کی بدولت لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
آشیش جیوتشی نے کہا کہ سلام ساگری اور اخلاق ساگری ساگر کے اہم شعراء تھے جن کی شاعری کو نئی نسل کو ضرور پڑھنا چاہیے ۔ وہ ہماری ادبی وراثت کا حصہ ہیں اور ان کو یاد کرتے رہنا ہمارا فرض ہے۔
شعری نشست میں جو اشعار پسند کیے گئے وہ درج ذیل ہیں:.
پیار کرتا ہوں ہر اک مذہب سے
میرا دل میرا وطن ہو جیسے
مایوس ساگری
تمھیں یقین نہیں پر مجھے بھروسہ ہے
دوسروں کی حفاظت میں مارا جاؤں گا
عرفان جھانسوی
مئے محبت میں ہوسکے تو کریں اضافہ
کہ اتنی کم میں میرا گزارا نہیں چلے گا
افضل دموہی
مشکلوں میں مسکرانا چاہیے
یہ ہنر ہم سب کو آنا چاہیے
ورنداون رائے سرل
ملک پر قربان جب بیٹا ہوا
فخر سے پھر سر مرا اونچا ہوا
اصغر پیام
زندگی میں خلوص لے آئیں
اس میں کچھ مال و زر نہیں لگتا
شفیق انور
بیٹی کو بوجھ کہتے ہیں وہ جانتے نہیں
برکت انہیں کے دم سے ہمارے گھروں میں ہے
ابرار احمد
اپنی ہمت کو ہم آزماتے رہے
چوٹ کھاتے رہے مسکراتے رہے
نعیم ماہر
سلسلہ ادبی و شعری نشست کی نظامت کے فرائض آدرش دوبے نے انجام دیے۔پروگرام کے آخر میں ایاز ساگری نے تمام مہمانوں، تخلیق کاروں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔