ریلوے ڈپٹی چیف انجینئر رشوت کے لین دین میں گرفتار

0
45

بھوپال، 25جولائی (رپورٹر) سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے ریلوے کے ڈپٹی چیف انجینئر سنجے کمار نگم سمیت تین افراد کو نیشنل ہائی ویز اتھارٹی آف انڈیا کے پل کی تعمیر کے لیے این او سی دینے کے لیے رشوت مانگنے پر گرفتار کیا ہے۔ سنجے کمار نگم اپنے ماتحت ملازم کے ذریعے ٹھیکیدار کمپنی سے رشوت لے رہے تھے۔ ٹھیکہ کمپنی کے جنرل منیجر کو بھی سی بی آئی نے رشوت دینے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ ریلوے افسر کی گرفتاری کے بعد سی بی آئی نے بھوپال، جبل پور، چھندواڑہ سمیت چار شہروں میں نصف درجن مقامات کی تلاشی لی ہے۔
سی بی آئی سے موصولہ اطلاع کے مطابق پل کی تعمیر کے لیے این او سی دینے کے بدلے ریلوے کے ڈپٹی چیف انجینئر سنجے کمار نگم نے 50 ہزار روپے کی رشوت لی ہے۔ حالانکہ نگم نے پیسے نہیں لیے لیکن جبل پور میں گرفتار ریلوے ملازم نگم کے لیے رشوت لینے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ کارروائی کے دوران گڑبڑ سے متعلق کئی اہم دستاویزات برآمد ہوئے ہیں۔ سی بی آئی اس معاملے سے جڑے نیشنل ہائی وے اتھارٹی آف انڈیا (NHAI) کے کچھ اہلکاروں کے کردار کو بھی مشکوک قرار دے کر جانچ کر رہی ہے۔
ذرائع نے بتایا جبل پور کے نیلمبری گیسٹ ہاؤس میں ریلوے کے ایک اہلکار سے رشوت لینے اور ٹھیکیدار کمپنی شری جی کے جنرل منیجر کی طرف سے رشوت لینے کی کارروائی ہوئی ہے۔ پیر کی دوپہر بھوپال سی بی آئی ٹیم نے رشوت دینے اور لینے والے کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد ایک ٹیم نے ریلوے اہلکار ایس کے نگم کو بھی حراست میں لے لیا ۔ فی الحال اس معاملے میں کوئی فریادی نہیں ہے۔ سی بی آئی نے یہ کارروائی ایک مخبر سے رشوت کے لین دین کی اطلاع ملنے کے بعد کی ہے۔
ذرائع سے ملی معلومات کے مطابق، این ایچ اے آئی نے کٹنی میں سڑک کی تعمیر کا ٹھیکہ شری جی انفراسٹرکچر انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ کو دیا ہے۔ ریلوے پل سڑک کی تعمیر کی راہ میں حائل ہے۔ معاملہ ٹریک سے جڑا ہوا ہے اس لیے اس کی اجازت ریلوے سے لینی تھی۔ سی بی آئی کو اطلاع ملی تھی کہ ریلوے انجینئر سنجے کمار نگم نے اجازت دینے کے عوض 50,000 روپے کی رشوت مانگی تھی۔ اطلاع ملنے کے بعد سی بی آئی نے انہیں رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لیے جال بچھا دیا اور فوراً محاصرہ شروع کر دیا۔ رشوت دینے کا کام شری جی کمپنی کا جنرل منیجر رام سجیون پال کر رہا تھا۔ دوپہر کو وہ 50 ہزار روپے لیکر اور انجینئر کو دینے گیسٹ ہاؤس پہنچا تھا۔ تب سی بی آئی بھی پیچھے تھی۔