بنگلورو 3مئی: کرناٹک ہائی کورٹ نے خودکشی کے ایک معاملے میں اہم فیصلہ دیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ کسی نے اگر کسی کو کہہ دیا کہ جاؤ پھانسی لگالو، اس کے صرف اتنا کہہ دینے کو خودکشی کے لیے اکسانے کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس ایم ناگ پرسنّا کی عدالت نے قابل اعتراض بیانات پر مشتمل خودکشی کے معاملات کی پیچیدگیوں پر سماعت کے بعد دیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ معاملہ ایک پادری کی خودکشی سے جڑا ہوا ہے جس پر عدالت میں سماعت ہوئی۔ اس میں جس شخص کو ملزم بنایا گیا تھا اس پر الزام تھا کہ اس نے پادری کو خودکشی کے لیے اکسایا تھا۔ یہ کیس ساحلی کرناٹک کے اڈوپی میں ایک چرچ میں پادری کی موت سے متعلق ہے۔ ملزم کا کہنا تھا کہ اس نے پادری کو خودکشی پر مجبور نہیں کیا تھا بلکہ صرف یہ کہا تھا کہ جاؤ پھانسی لگالو اور پادری نے پھانسی لگالی تھی۔ پادری اور درخواست گزار کی بیوی کے درمیان مبینہ تعلقات تھے اور اسی معاملے پر دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا تھا۔ وکیل دفاع نے دلیل دی کہ ملزم نے یہ بات مبینہ تعلقات کا پتہ چلنے پر غصے میں کہی تھی اور پادری نے اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کی وجہ ان کے مبینہ تعلقات کا دوسروں کو پتہ چل جانا تھا نہ کہ ملزم کے کہنے پر اس نے ایسا کیا۔ دوسرے فریق کے وکیل نے کہا کہ پادری نے اپنی جان اس لیے لی کیونکہ ملزم نے سب کو اس مبینہ تعلقات کو بتانے کی دھمکی دی تھی۔ سنگل جج کی بنچ نے سپریم کورٹ کے سابقہ ​​فیصلوں کی بنیاد پر اس بات پر زور دیا کہ صرف ایسے بیانات کو خودکشی پر اکسانا نہیں سمجھا جا سکتا۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے پادری کی خودکشی کے پیچھے کئی وجوہات کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ مثال کے طور پر ایک باپ اور پادری ہونے کے باوجود اس کے مبینہ ناجائز تعلقات۔ عدالت نے انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسے سمجھنے کے چیلنج پر زور دیا۔ عدالت نے ملزم کے بیان کو خودکشی پر اکسانے کے طور پر درجہ بندی کرنے سے انکار کر تے مقدمے کو خارج کر دیا۔