نئی دہلی 26اپریل: سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز اس مفاد عامہ عرضی پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کیا ہے جس میں الیکشن کمیشن کو یہ ہدایت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’نوٹا‘ (NOTA) یعنی ’ان میں سے کوئی نہیں‘ کو سب سے زیادہ ووٹ ملنے پر انتخاب رد کیا جائے۔ اس عرضی میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ اگر کسی سیٹ پر اس طرح کی حالت پیدا ہوتی ہے تو انتخابی حلقہ میں ہوئے انتخاب کو رد کر وہاں نئے سرے سے انتخاب کرائے جائیں۔ اس معاملے کی سماعت کے لیے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی تین ججوں کی بنچ کے سامنے عرضی دہندہ شیو کھیڑا کی طرف سے سینئر ایڈووکیٹ گوپال شنکر نارائن پیش ہوئے۔ اس دوران انھوں نے عدالت سے کہا کہ سورت (گجرات) میں ہم نے دیکھا کہ وہاں ایک ہی امیدوار تھا اور ایسے میں اسے فاتح قرار دے دیا گیا۔ اگر ’نوٹا‘ کو بھی ایک امیدوار قرار دیا جاتا تو ایسا نہیں ہوتا۔ اس سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ عدالت اس سلسلے میں نوٹس جاری کرے گی، کیونکہ یہ معاملہ انتخابی عمل سے جڑا ہے۔ عرضی دہندہ کے ذریعہ پیش وکیل کی دلیلوں کو سننے کے بعد الیکشن کمیشن کو اس معاملے میں جواب دینے کے لیے نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اس مفاد عامہ عرضی کو داخل کرنے والے شیو کھیڑا خطیب اور مصنف ہیں۔ انھوں نے سپریم کورٹ میں داخل اس عرضی میں ایک ایسا اصول بنانے کی ہدایت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں اگر نوٹا کو اکثریت ملتی ہے تو اس انتخابی حلقہ میں ہوئے الیکشن کو رد کر نئے سرے سے انتخاب کرایا جائے۔ ساتھ ہی اس میں یہ بھی اصول بنایا جائے کہ نوٹا سے کم ووٹ حاصل کرنے والے امیدواروں کو 5 سال کی مدت کے لیے سبھی انتخاب لڑنے سے روک دیا جائے اور ’نوٹا‘ کو ’تصوراتی امیدوار‘ کی شکل میں مانا جائے۔