ممبئی،30،مارچ (یواین آئی)ملک میں امسال اردوصحافت کے دوسوسال مکمل ہوچکے ہیں ،گزشتہ دوتین سال کوویڈ19 کی وجہ سے معاملات ٹھنڈے اور ملنے جلنے کادور ٹھنڈا ہی رہا،خصوصی طور پر ماہ رمضان میں چند معززین صحافیوں کو افطار پر مدعو کرتے ہیں۔البتہ جماعت اسلامی حلقہ مہاراشٹر کی خصوصی دعوت افطار اور عشائیہ قابل ستائش ہے اور مہمان نوازی کی جاتی ہے،اس کی تفصیل سے قبل صحافیوں کے لیے دیے جانے والے ایک افطار ڈنر کا ذکرتے ہیں۔جو پُرانے دور کی افطار کی یاد تازہ کردیتی ہے۔
مذکورہ دعوت افطار کی تفصیل سے قبل پرانے صحافیوں اور لوگوں میں نصف صدی اور اس سے قبل ممبئی میں دعوت افطار کی تقریبات کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ایسی ہی ایک دعوت ۲۷ویں رمضان کو روزنامہ انقلاب کے بانی ومالک مرحوم عبدالحمیدانصاری اخبار کے عملے اور شہر کے معززین کو افطار پر مدعو کیا کرتے تھے۔مذکورہ دعوت افطار کا ذکر معروف صحافی جاوید جمال الدین نے بانی انقلاب کی سوانح عمری عبدالحمیدانصاری انقلابی صحافی اور مجاہدآزادی میں کیا ہے ۔جوکہ ۲۰۰۲میں شائع ہوئی تھی،اس موقع پرانقلاب کے سب سے پرانے رکن اور کاتب علیم اللہ خان نے ان دعوتوں کو یادکرتے ہوئے ۱۹۶۷ میں دی گئی ایک انوکھی افطار کا ذکر کیا،جسے دعوت شیرازوسمرقند کا نام دیا گیا تھا۔
اس کی تفصیل کتاب میں پیش کی گئی ہے ،جس کا عنوان ۲۷، رمضان المبارک کو انقلاب کے سربراہ عبدالحمیدانصاری کی جانب سے دعوت شیراز،رکھا گیا تھا۔
انہوں نے لکھا ہے کہ ہر سال ۲۷ رمضان المبارک کو انقلاب کے سر براہ عبدالحمید انصاری جے پی شہر ۔کے معززین اور ادارہ انقلاب کے اراکین کو افطار پارٹی دیا کرتے ہیں اور یہ کہنا بالکل بھی مبالغہ نہ ہوگا کہ ۲۷ ،رمضان کی یہ پارٹی ہر سال پُر تکلف اور شاندار ہوتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ پارٹی” دعوت سمرقند”سے کسی طرح کم نہیں ہوتی ۔ اس بار بھی ۲۷ ، رمضان المبارک کو انصاری صاحب کی جانب سے افطار پارٹی دی گئی ،لیکن یہ پارٹی گزشتہ تمام دعوتوں سے جاندار اور شاندارر ہی، کیونکہ یہ ہر سال کی پارٹی سے زیادہ اور انتہائی بے تکلفانہ انداز میں دی گئی ۔ اس دعوت شیراز میں صرف باجرے کی روٹیاں اور دوقسم کی چٹنی تھیں اور روزہ کھولنے کے لئے کھجوریں ۔
اراکین انقلاب اور صحافی حضرات ایک با رتوان چیزوں کو دیکھ کر چونک پڑے کیونکہ اس میں نہ ہی پھل اور میوہ جات تھے ، نہ مرغن مسالن اور نہ دوسرے کھانے جو ہر سال دسترخوان کی زینت بنا کر تے تھے ۔
انہوں نے کہاکہ لیکن جلد ہی ان کی سمجھ میں ساری بات آ گئی اور اس کے بعد باجرے کی روٹی اور چٹنیوں نے وہ مزہ د یا کہ اس کے سامنے ہر نعمت ہیچ نظر آئے گی ۔ اس سال افطار کی دعوت کو دعوت شیراز بنا کر انصاری صاحب نے اس سے جس قدر رقم بچائی گئی ،اسے ۱۹۶۸ کے مغربی بنگال کے مصیبت زدہ لوگوں کے لئے انقلاب فنڈ میں دی گئی ۔
مرحوم عبدالحمیدانصاری نے اس موقع پر کہاکہ ہماری ایک دن کی پرتکلف دعوت بلکل سادہ دعوت شیراز بنادی جاۓ تو ہم کتنے ہی مصیبت ز دہ لوگوں کی امداد کر سکتے ہیں ۔ ایک اور بات شاید کچھ لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ انصاری صاحب نے دعوت شیراز صرف دفتر اور ادارے کے لوگوں کے لئے کی تھی ۔ جی نہیں ، باجرے کی روٹی اور چینی کا مزہ تمام گھر والوں اور معززین نے بھی خوب لیا ۔ اس طرح انہوں نے اپیل کی کہ “ہمیں آپ سے اس سے زیادہ کچھ اور نہیں کہنا ہے کہ کیا آپ اپنی عیدالفطر کی دعوت کو دعوت شیراز بنائیں گے یا دعوت سمرقند انقلاب کے سب سے پرانے رکن علیم اللہ خان کو آج بھی وہ دعوت یادرہی تھی ،علیم صاحب،ایک عرصہ گزر جانے کے بعد بھی انصاری صاحب کی مہمان نوازی کو بھلا نہیں سکے تھے۔
امسال بھی حسب معمول جماعت اسلامی نے صحافیوں کے لیے دعوت افطار کااہتمام کیا۔اس موقع پرجماعت کے حلقہ سکریٹری ظفر انصاری ، ناظم ممبئی میٹرو ہمایوں شیخ ، سکریٹری ممبئی میٹرو عبید الرحمٰن اور آفس سکریٹری حذیفہ انصاری نے مہمان نوازی کی جبکہ صحافیوں میں روزنامہ ہندوستان کے مدیر اور مالک سرفراز آرزو ،اردوٹائمز کے ایڈیٹر فاروق انصاری،ممبئی اُردو نیوز کے ایڈیٹر شکیل رشید،فرحان حنیف،صحافی جاوید جمال الدین ،صحافت سے ہارون افروز،ٹائمزآف انڈیا کے محمد وجہیہ الدین ،بصیرت آن لائن سے غفران ساجد،ای ٹی وی بھارت کے شاہد انصاری اور دیگر موجود تھے۔