نئی دہلی 8دسمبر:پچھلے کچھ دنوں سے پورے ملک میں مساجد اور درگاہوں سے متعلق مقدمے اور سروے کا دور چل پڑا ہے۔ جس کی وجہ سے کئی جگہوں پر کشیدگی بھی ہو گئی۔ سنبھل میں جامع مسجد کے سروے کے درمیان ہوئے تنازعہ میں کئی لوگوں کی جانیں بھی چلی گئیں۔ مساجد اور درگاہوں پر مقدمے اور سروے کے حوالے سے سیاسی طور پر بیان بازی بھی شروع ہو گئی ہے کوئی حمایت میں بول رہا ہے تو کوئی مخالفت میں۔ اجمیر شریف کے نیچے مندر ہونے کے دعویٰ پر سماج وادی پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری اور راجیہ سبھا رکن رام جی لال سمن نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اجمیر درگاہ گیارہویں صدی کی ہے۔ اجمیر درگاہ کی پوری سچائی تاریخ میں درج ہے۔ یہاں پر ہندو راجہ بھی پوری عقیدت کے ساتھ آتے تھے۔‘‘ اقلیتی برداری کے خلاف لگائے جا رہے الزام کے جواب میں رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ مسلمان اپنے آپ کو مغلوں کا نہیں بلکہ پیغمبر محمد کا نسل مانتے ہیں۔ مسجد کے نیچے مندر کے دعویٰ کے درمیان رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ’’1991 کے پارلیمنٹ ایکٹ میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ مندر کی جگہ مندر اور مسجد کی جگہ مسجد رہے گی۔‘‘ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ’’موہن بھاگوت نے بھی سال 2022 میں کہا تھا کہ ہر مسجد یا ہر درگاہ کا کھدائی کرانا صحیح نہیں ہے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اجمیر شریف کی درگاہ میں دنیا کے بڑے سے بڑے لوگوں نے حاضری دی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے جنرل سکریٹری رام جی لال سمن نے مقدس اجمیر شریف کی روایات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہاں پر ہر سال وزیر اعظم کی جانب سے چادر پوشی کروائی جاتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ درگاہ ہندو مسلم اتحاد کی شاندار علامت ہے۔ ایسے میں ان معاملوں پر تنازعہ کھڑا کرنا مناسب نہیں ہے۔ راجیہ سبھا رکن کے مطابق اجمیر شریف کی درگاہ پر زیارت کرنے والوں میں مسلم طبقے سے زیادہ ہندو طبقے کے لوگ ہیں۔ بی جے پی پر طنز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’کچھ لوگوں کو رات کے خواب میں بھی بابر اور تمام مغل حکمراں نظر آتے ہیں۔‘‘
شام میں ہندوستانی سفارت خانہ شہریوں کی مدد کے لیے دستیاب
نئی دہلی، 08 دسمبر (یو این آئی) شام میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے باوجود ہندوستانی سفارت خانہ معمول کے مطابق کام کر رہا ہے اور ہندوستانی شہریوں کی مدد کے لئے دستیاب ہے۔