علامہ سید سلیمان ندوی پر سیمینار کی چار نشستوں میں 28 مقالات پیش

0
31

خواتین کی سرگرم شرکت کو ڈاکٹر محسن عثمانی نے سراہا اور تجاویز کو منظوری دی
بھوپال، 22 مئی: دارالعلوم تاج المساجدمیں ’’علامہ سیدسلیمان ندویؒ،حیات وخدمات‘‘کے عنوان پرمنعقدہ دو روزہ سیمینارآج بحسن وخوبی اختتام کوپہنچا،اختتامی نشست میں دارالعلوم میں قائم ہونے جارہی ’’سیدسلیمان ندوی اکیڈمی‘‘کے لئے سفارشات اورتجاویزمنظورکی گئیں، جو ڈاکٹر عارف جنیدصاحب ندوی نے سامعین کوپڑھ کرسنائیں اورتمام حضرات نے ہاتھ اٹھاکراس کی تائید وحمایت کی۔اختتامی نشست کی صدارت مولاناپروفیسرمحمدحسان خان صاحب نے فرمائی،آپ نے اپنے صدارتی کلمات میں تمام مقالہ نگارحضرات کاشکریہ اداکیا، نیز فرمایا کہ واقعی سیدسلیمان ندویؒ متبحرعالم تھے،ان کے نام سے اکیڈمی قائم کرنے کے سلسلہ میں جب ہم نے پروفیسر خالد محمودصاحب سے مشورہ کیا تو انھوں نے کہاکہ اس سے پہلے ایک سیمینار ہونا چاہیے، ہمارے ذہن میں ۱۹۸۵؁ء میں دارالعلوم تاج المساجدمیں منعقدہونے والا سیمینار تھا، جس میں صرف شرکت کرنے والے لوگ ہی آج کے مقالہ نگاروں سے زیادہ قابل تھے،اس لئے ہمیں حیرت ہوئی کہ سیمینارکیسے منعقد ہوگا، لیکن الحمدﷲسیمینارہوااورنہایت کامیاب رہا،اس کاایک مقصدسیدصاحب کے بارے میں یہ بھی تعارف کراناتھاکہ وہ واقعی ’’علامہ‘‘ تھے۔ صدر صاحب کے خطاب سے پہلے معززشخصیات نے اپنے تاثرات پیش کیے۔جن میں اختتامی نشست کے ناظم مولانا ڈاکٹر اطہر حبیب ندوی نے اس سیمینارکی کامیابی کے لئے جدوجہدکرنے والے دارالعلوم کے تمام ہی اساتذہ ،طلباء ودفتری عملہ کاشکریہ ادا کیا، بالخصوص منصرم دارالعلوم سیدشہادت علی ندوی،محمدفیضان خان ندوی کی محنتوں کااورمولوی حمدان حسان ندوی جوسیمینارکے سلسلہ میں ہر ضروری دستاویزکی کمپوزنگ میں ہمہ وقت مستعدرہے،اسی طرح افتتاحی اجلاس عام کے لئے پرسہولت ٹینٹ کاانتظام کرنے والے جاوید بھائی اورپرویزبھائی کا اور دوروزہ سیمینارکوکوریج دینے والے میڈیائی عملہ کاکہ انھوں نے اپناوقت صرف کرکے یہاں مستقل حاضری دی۔ پروفیسر مولانامحسن عثمانی ندوی نے اپنے مختصرخطاب میں اس بات پرمسرت کااظہارکیاکہ یہ میں پہلاسیمینارکادیکھ رہاہوں جس میں خواتین کو بھی شرکت کاموقع دیا گیا اور انھوں نے بھی نہایت تحقیقی مقالات پیش کیے،یقینابھوپال تووہ شہرہے کہ جہاں کی خواتین نے پورے ملک میں علم کی سرپرستی کی ہے، نیز آپ نے فرمایاکہ آج ضرورت ہے کہ سیدسلیمان ندوی کی کتابوں بالخصوص سیرت کوہندی اورانگریزی میں بھی شائع کیاجائے اوربرادران وطن میں اسے تقسیم کیاجائے،ہمیں امیدہے کہ سلیمان اکیڈمی اس کام کوانجام دے گی۔اعظم گڈھ سے تشریف لائے مولاناعمیر الصدیق ندوی نے اپنے خطاب میں فرمایاکہ بھوپال سے سیدسلیمان ندوی کاجوتعلق رہاتواس کالازمی تقاضایہ تھاکہ یہاں ان کے نام سے اکیڈمی قائم ہو،ان شاء اﷲ یہ اکیڈمی حریف بن کرنہیں بلکہ حلیف بن کرکام کرے گی،سیمینارمیں مقالہ نگاروں کے ساتھ ساتھ سامعین کی ایک بڑی تعدادیہ بتاتی ہے کہ بھوپال کی مٹی سے ہمیں ابھی بہت امیدیں ہیں،ہم مایوس نہیں ہوسکتے۔معروف ادیب پروفیسر خالد محمودصاحب نے فرمایاکہ اکیڈمی کاقیام غیر معمولی کارنامہ ہے،میں جناب حسّان خاں صاحب کواس کی بہت بہت مبارکبادپیش کرتا ہوں، آپ نے اس بات کی طرف بھی رہنمائی فرمائی کہ اس طرح کی اکیڈمیاں تربیت گاہ بھی ہوتی ہیں ،اس لئے اس اکیڈمی کے زیرنگرانی دارالعلوم کے طلباء کے لئے مختلف عنوانات کے تحت تحقیقی پروگرام منعقدہوں ،جن میں خودطلباء لکچردیں،کبھی کبھی باہرسے کسی اسکالر اور لکچرار کو بھی بلایاجائے اوران کے بھی لکچرہوں۔جناب ڈاکٹراقبال مسعود نے مختصروقت میں جامع باتیں ارشادفرمائیں ،آپ نے کہاکہ اس سیمینار میں نوجوانوں کی بکثرت شرکت پرمجھے بے انتہاخوشی محسوس ہورہی ہے اس لئے کہ یہی قوم کامستقبل ہیں اور انہی سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔سیدصاحب کی شخصیت ایک سمندرتھی ،ان پر توبارباراس قسم کے سیمینارمنعقدہوناچاہیے،نیزانھوں نے دارالعلوم کی لائبریری پرغیرمعمولی خوشی کااظہارکیااورکہاکہ شایدہی کہیں ایساہوکہ اتنے کم وسائل کے باوجودایسی مفیدلائبریری قائم ہوجس میں ہرفن پر کتابیں بکثرت موجودہیں۔
سیمینارمیں کل چارنشستوں کاانعقادعمل میں آیا،جس میں تقریباً ۲۸ مقالات پیش کیے گئے۔ تمام ہی نشستیں دارالعلوم کی لائبریری مکتبہ علامہ سیدسلیمان ندوی کی حسین عمارت میں منعقد ہوئیں۔ پہلی نشست بتاریخ ۲۱؍ مئی بروزاتواربعدنمازمغرب زیرصدارت مولانا پروفیسر محسن عثمانی ندوی منعقدہوئی،جس میں نظامت کے فرائض مولاناڈاکٹرعارف جنید نے انجام دیئے ،اس میں کل ۹ مقالات پیش کیے گئے،جن میں مولاناسیدشرافت علی ندوی،جناب عارف عزیز،ڈاکٹرطارق ایوبی ندوی،مولانانعمت اﷲ ندوی خاص طورپرقابل ذکرہیں۔ دوسری نشست ۲۲؍ مئی بروزپیرصبح نوبجے شروع ہوئی،جس کی صدارت مولاناسیدشرافت علی ندوی اور نظامت ڈاکٹرسفیان حسان ندوی نے کی،اس میں کل آٹھ مقالات پیش کیے گئے،مقالہ نگاروں میں دارالعلوم کے پانچ اساتذہ بھی تھے، اسی نشست میں ڈاکٹرعائشہ رئیس کمال صاحبہ نے بھی اپنامقالہ پیش کیا۔تیسری نشست زیرصدارت پروفیسرخالدمحمودصاحب منعقدہوئی جس کی نظامت دارالعلوم کے استاذ محمدخالدندوی نے کی،اس موقع پرایک کتاب’’گلدستۂ تقاریر‘‘کارسم اجرابھی عمل میں آیا،جومولانامحمدعمران خان ندوی ازہریؒ کی علمی ودینی تقاریرکامجموعہ ہے،جس کے مرتب مولاناہی کے دوفرزندزادے ڈاکٹرسفیان حسان ندوی اورمولوی محمدحمدان خان ندوی ہیں،یہ کتاب ۲۵۴ صفحات پرمشتمل ہے۔کتاب کارسمِ اجراء مولاناپروفیسرحسان خاں،پروفیسرمحسن عثمانی ندوی، پروفیسر خالد محمود کے دستِ مبارک سے ہوا۔سیمینارکی اس نشست میں بھی کل آٹھ مقالات پیش کیے گئے ،مقالہ نگاروں میں مولانا پروفیسر محسن عثمانی ندوی،مولاناسیدبابرحسین ندوی،قاضی سیدمشتاق علی صاحب ندوی،مفتی ابوالکلام صاحب قاسمی، ڈاکٹر مرضیہ عارف اور خالدہ صدیقی کے نام قابل ذکر ہیں۔ سیمینارکے تمامتر مقالات میں علامہ سیدسلیمان ندوی کی زندگی کے مختلف گوشوں کواجاگرکیاگیاتھا۔