ایم پی اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام ودیشہ میں سلسلہ کے تحت بیاد دانش مالوی اور پروفیسر مختار شمیم، ادبی و شعری نشست منعقد

0
5

بھوپال:22؍ فروری:(پریس ریلیز) مدھیہ پردیش اردو اکادمی، محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام ضلع ادب گوشہ، ودیشہ کے ذریعے سلسلہ کے تحت مشہور شاعر دانش مالوی اور معروف ادیب، ناقد و شاعر پروفیسر مختار شمیم کی یاد میں شعری و ادبی نشست کا انعقاد 18 فروری 2024کو دوپہر 2:00 بجے نریندر تامرکار پریس کلب، ودیشہ میں ضلع کوآرڈینیٹر سنتوش ساگرکے تعاون سے کیا گیا۔
اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے پروگرام کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مدھیہ پردیش اردو اکادمی کے زیر اہتمام ودیشہ میں منعقد سلسلہ پروگرام میں جن دو شخصیات کو یاد کیا جارہا ہے ان کا اردو شعر و ادب میں بڑا حصہ ہے۔ جہاں دانش مالوی نے شاعری کے میدان میں اپنے انمٹ نقوش ثبت کیے وہیں پروفیسر مختار شمیم نے اردو تحقیق و تنقید اور شاعری کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دی۔ وہ اردو کے معروف محقق و ناقد تھے۔ان دونوں شخصیات کی ادبی و شعری خدمات سے نئی نسل کو روشناس کرانا اس پروگرام کا مقصد ہے۔
ودیشہ ضلع کے کوآرڈینیٹر سنتوش ساگر نے بتایا کہ منعقدہ پروگرام میں سلسلہ کے تحت دوپہر 2:00 بجے شعری و ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت ودیشہ کے سینئر شاعر نثار مالوی نے کی۔ساتھ ہی مہمان ذی وقار کے طور پر گنا کے سینئر شاعر ڈاکٹر اشوک گویل اسٹیج پر جلوہ افروز رہے۔ نشست کی شروعات میں ودیشہ کے ادبا و شعرا نثار مالوی اور اسعد ہاشمی نے مشہور شاعر دانش مالوی اور معروف ادیب و ناقد پروفیسر مختار شمیم کی شخصیت اور کارناموں کے حوالے سے گفتگو کر انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔
نثار مالوی نے کہا کہ دانش مالوی نے اردو شاعری کے حوالے سے اپنے شہر کا نام روشن کیا۔ دانش مالوی سرونج میں پید ہوئے اور کوروائی میں معلم کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ انھوں نے کئی کل ہند مشاعروں میں سرونج اور مدھیہ پردیش کی نمائندگی کی اور آخر وقت تک شعروادب کی خدمات انجام دیتے رہے۔
وہیں اسعد ہاشمی نے کہا کہ پروفیسر مختار شمیم نے مختلف عہدوں پر رہتے ہوئے اردو ادب کی خدمت کی۔ ظہیر دہلوی پر ان کا بڑا کام ہے۔ وہ نہ صرف یہ کہ بہترین تخلیق کار تھے بلکہ ایک عمدہ انسان بھی تھے۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ہمیشہ کام کرتے رہے۔ ان کی نمایاں ادبی خدمات کے لیے انھیں کئی اعزازات سے نوازا گیا۔
شعری نشست میں جو اشعار پسند کیے گئے وہ درج ذیل ہیں:.
موت جس کے چومتی ہے پاؤں وہ کردار ہوں میں
آدمی کی شکل میں کھویا ہوا فنکار ہوں میں
جگدیش شریواستو
عشق زندہ ہے ہیر زندہ ہے
میری غزلوں میں میر زندہ ہے
اشوک گویل
کیسے کہوں کہ اب کوئی رشتہ نہیں نہیں رہا
دشمن ہی سہی دوست مجھے مانتے تو ہیں
لورام پتھک
جو چپ رہوں تو جگر میں میرے ابلتا ہے
غزل کہوں تو غزل سے لہو ٹپکتاہے
اقبال منظر
عشق کی راہوں پہ تڑپے تو سکوں پاتا ہے دل
عقل کی باتوں میں دیوانہ کہاں آتا ہے دل
عظمت دانش
سرد راتیں گزاریں ٹھٹھرتے ہوئے
پر حقارت کے کمبل کو اوڑھا نہیں
سلیمان آزر
وفاؤں کا مری کیا خوب پایا ہے ثمر میں نے
کہ دل توڑا اسی نے سمجھا جس کو ہم سفر میں نے
الیاس رضا
تیری یاد آکے مجھ کو خبر کرتی ہے
بس تیری یاد میری آنکھوں کو تر کرتی ہے
فہیم باسودوی
نظر ملا کے گر نہیں نظر بچا کے دیکھ لو
ذرا ہماری سمت بھی تو مسکرا کر دیکھ لو
چاند خاں چاند
سونپ دی تم کو یہ زندگانی اور کیا آزمائش کروگے
جو بھی کہنا ہے وہ صاف کہہ دو کب تلک یہ نمائش کروگے
ممتا گرجر
میری روداد میرے پاؤں کے چھالے بولے
میں تھا خاموش میرے چاہنے والے بولے
طالب محمد طالب
اس کی خوشی کا دوستوں عالم نہ پوچھیے
پانی میں ڈوبتے کو جو تنکا دکھائی دے
اسعد ہاشمی
کبھی کچا بناتی تھی کبھی پکا بناتی تھی
مگر ماں جو بناتی تھی بہت اچھا بناتی تھی
سنتوش ساگر
سلسلہ ادبی و شعری نشست کی نظامت کے فرائض ادے ڈھولی نے انجام دیے.
پروگرام کے آخر میں ضلع کوآرڈینیٹر سنتوش ساگر نے تمام مہمانوں، تخلیق کاروں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔