آج پورا ملک جشن یوم آزادی منا نے جارہاہے آج ملک کو آزاد ہوئے 76سال سے بھی زائد عرصہ ہو چکا ہے۔آزادی کی جدوجہد،یکجہتی، آپسی بھائی چارے کے علاوہ ایک قابل فخرواقعہ بھارت چھوڑو تحریک بھی ہے۔ اتنے عرصے کے بعد بھی یہ تحریک عوام کے لیے طاقت کی ایک روشن مثال ہے۔جنگ آزادی میں اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر وطن کی مٹی کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے والے عظیم مجاہدین آزادی کے کارنامے ہمیں ہمت و طاقت دیتے ہیں اور ہمیں وطن کے لئے مر مٹنے کی تحریک ملتی ہے۔تمام ہی مجاہدین کی بھارت کے لیے کی گئی خدمات کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ بمبئی کے گوالیاٹینک میدان پر 8 اگست 1942 کو کُل ہند کانگریس کمیٹی نے ’’بھارت چھوڑو‘‘ قرارداد منظور کی اور 9 اگست کو بھارت کا ہرخاص و عام اس میں کود پڑا۔ جسے دیکھ کر انگریزوں میں کھلبلی مچ گئی لیکن ہم میں سے کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اس تاریخی حقیقت سے نا واقف ہیں کہ آزادی کی جدوجہد کا ایک اہم نعرہ جو تاریخ ہند میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کے کہنے والے بمبئی کے میئر یوسف مہر علی تھے، وہ مہاتما گاندھی سے نزدیکی قرابت رکھتے تھے وہ مخالفین کے آگے چٹان کی طرح ڈٹے رہے، تحریک آزادی میں ان کی قربانی کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
جب 8اگست 1942ء کو کانگریس پارٹی نے ممبئی اجلاس میں مولانا آزاد کی صدارت اور یوسف مہر علی کے نعرے کے ساتھ ’’بھارت چھوڑو‘‘ تحریک شروع کی تو اس تحریک میں بلا تفریق مذہب و ملت معاشرے کے ہر طبقے نے خاص طور پر خواتین نے بڑے پیمانے پر حصہ لیا۔ ان میں سر فہرست مہاتما گاندھی کے ساتھ ساتھ مولانا ابوالکلام آزاد، سبھاش چندر بوس،اشوک مہتا، جئے پرکاش نارائن، پنڈت جواہر لعل نہرو وغیرہ پیش پیش رہے۔تحریک اگست یا ’’بھارت چھوڑو‘‘ تحریک نے انگریزوں کے حواس باختہ کر دئیے اور انگریزی حکومت کے قدم اُکھڑ گئے۔ اس تحریک کا خوف اتنا ہوا کہ تمام کانگریس لیڈران کو انگریز حکومت نے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا، شاید ہی کوئی بچا ہو جو جیلوں کے اندر بند نہ کیا گیا ہو۔
ان مرد مجاہدین کے ساتھ ساتھ خواتین مجاہدین آزادی بھی تھیں جو ان تمام لیڈران کے اندر ہوجانے کے بعد مورچہ سنبھالے ہوئے تھیں ان میں سرفہرست ارونا آصف علی،سروجنی نائیڈو، بیگم عرف بی اماں، فاطمہ اسماعیل، ریحانہ طیب جی، فاطمہ طیب جی، حمیدہ طیب جی، اور صغریٰ خاتون وغیرہ تھیں ۔ان تمام جاں باز خواتین نے تمام تکالیف کو ہنستے ہوئے برداشت کیا اور اپنے وطن سے سچی محبت کا ثبوت پیش کیا ۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس عظیم جنگ آزادی میں جہاں مرد و خواتین نے جان کی بازی لگادی اور پورا بھارت انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی کی لڑائی لڑ رہا تھا وہیں دوسری جانب سے روکنے کے لئے اور اس تحریک کو کمزور کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کی گئی اور اس کا بائیکاٹ ہی نہیں کیا گیا بلکہ اپیل بھی جاری کی گئی جن میں تمام ہندو مہاسبھا کے لیڈر اور ہندومہاسبھا اور مسلم لیگ شامل تھیں اور ساتھ میں یونینسٹ پارٹی آف پنجاب وغیرہ بھی شامل تھیں۔ آج بھارت کے سیاسی حالات کی اور برسراقتدار حکمرانوں کی یہ شعر بخوبی عکاسی کرتا ہے ؎
نیرنگیٔ سیاست دوراں تو دیکھئے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
’’بھارت چھوڑو تحریک‘‘ بھارت کی جدوجہد میں ایک اہم سنگ میل تھی۔اس نعرہ نے بھارت کی آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بھارت چھوڑو تحریک 9 اگست 1942 کو، مہاتما گاندھی اور کانگریس کے تمام لیڈران کے ذریعے شروع کی گئی تھی جس کا مطالبہ بھارت میں برطانوی سامراج کا خاتمہ تھا۔ ایسے مجاہد یوسف مہر علی جنہوںنے یہ نعرہ دیا ہم انہیں سلام کرتے ہیں نیز تمام ہی محبان وطن حضرات سے اپیل کرتے ہیں کہ ایسے مجاہدین کی تاریخ کو خود بھی پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیں جس سے ان کے اندر وطن پرستی کا جذبہ پیدا ہو اور ملک کی ساجھی وراثت کو بچانے اور ملک کی ساجھی وراثت کو مضبوط کرنے کے لئے کام کریں جس سے ہمارا ملک بھارت مضبوط ہو۔