نئی دہلی 12اپریل: تمل ناڈو کی ڈی ایم کے حکومت نے ایک بے مثال قدم اٹھاتے ہوئے 10 بلوں کو گورنر اور صدر جمہوریہ کی بغیر رسمی رضامندی کے ایکٹ کی شکل میں نوٹیفائی کر دیا ہے۔ یہ قدم سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد اٹھایا گیا ہے جس میں ان بلوں کو خود بخود منظور شدہ تصور کیا گیا تھا۔ ہندوستان میں یہ پہلی بار ہے جب کسی ریاست نے بغیر گورنر یا صدر جمہوریہ کے دستخط بل کو نافذ کیا ہے۔ اسے ریاستی حکومت کی خود مختاری اور وفاقی ڈھانچے کی فتح کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے 8 اپریل 2025 کو تمل ناڈو حکومت بمقابلہ تمل ناڈو کے گورنر معاملے میں ایک اہم فیصلہ سنایا تھا۔ عدالت نے گورنر آر این روی کے ذریعہ 10 بلوں کو صدر جمہوریہ کو غور و خوض کے لیے بھیجنے کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ گورنر کے ذریعہ دوبارہ منظور شدہ بلوں کو صدر جمہوریہ کے پاس بھیجنا آئین کے آرٹیکل 200 کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے واضح طور پر کہا کہ اسمبلی سے 18 نومبر 2023 کو دوبارہ منظور شدہ بلوں کو اسی دن سے گورنر سے منظور شدہ مان لیا جائے گا۔ یہ بل جنوری 2020 سے اگست 2023 کے درمیان ریاستی اسمبلی کے ذریعہ منظور کیے گئے تھے۔ عدالت نے کہا کہ اسمبلی کے ذریعہ دوبارہ منظور کیے گئے بلوں پر گورنر کو فوری طور پر منظوری دینی تھی اور صدر جمہوریہ کو بھیجنے کا ان کا قدم غلط تھا۔ جسٹس جے بی پاردیوالا اور آر مہادیون کی بنچ نے آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان 10 بلوں کو 18 نومبر 2023 کو منظور شدہ مان لیا۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ صدر جمہوریہ کے ذریعہ ان بلوں پر کی گئی کوئی بھی کارروائی، جس میں 7 کو مسترد کرنا اور 2 پر غور و خوض نہ کرنا شامل ہے، قانونی طور پر غلط ہے۔ تنازعہ کی شروعات 2022 میں اس وقت ہوئی تھی جب ڈی ایم کے حکومت نے گورنر کے پاس وائس چانسلرز کی تقرری کے اختیار کو ختم کرنے کا بل پاس کیا۔ گورنر نے اس پر اعتراض کیا اور یو جی سی کی نمائندگی کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد کل 10 بلوں کو منظوری نہیں دی گئی اور انہیں 28 نومبر 2023 کو صدر جمہوریہ کے پاس بھیجا گیا، جسے سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دیا۔