نئی دہلی 15مئی: تمل نادو حکومت اور گورنر کی جنگ نئی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ کے ذریعہ دیے گئے فیصلے پر صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے سوال اٹھا دیے ہیں، اور اب تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے ’سپریم فیصلے‘ پر سوال اٹھائے جانے کو لے کر ناراض ہو گئے ہیں۔ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ ’’میں مرکزی حکومت کے صدر سے متعلق معاملے کی سخت مذمت کرتا ہوں، جو عزت مآب سپریم کورٹ کے ذریعہ طے کردہ آئینی حالت کو الٹنے کی کوشش ہے۔‘‘ وزیر اعلیٰ اسٹالن نے اپنے بیان میں کہا کہ تمل ناڈو بمقابلہ گورنر معاملے میں سپریم کورٹ کے ذریعہ دیے گئے فیصلے کو مرکزی حکومت پلٹنا چاہتی ہے۔ اس سے یہ صاف ہو گیا ہے کہ تمل ناڈو کے گورنر نے بی جے پی کے اشارے پر کام کیا اور لوگوں کے مینڈیٹ کو کمتر کیا۔ اسٹالن نے مزید کہا کہ یہ جمہوری طور سے منتخب کردہ حکومت کو کمزور کرنے اور انھیں گورنرس کے کنٹرول میں دینے کی کوشش ہے، جو مرکزی حکومت کے ایجنٹ کی طرح کام کرتے ہیں۔
ساتھ ہی یہ آئین کی تشریح کرنے والے سپریم کورٹ کو بھی چیلنج ہے۔ اسٹالن نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر صدر جمہوریہ کے ذریعہ پوچھے گئے سوالات کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے خود کچھ سوالات سامنے رکھ دیے ہیں۔ انھوں نے پوچھا ہے کہ آخر گورنرس کے لیے مدت کار طے کرنے میں کیا اعتراض ہے؟ کیا بی جے پی بلوں کو روکنے کی گورنرس کی کوشش کو جائز کرنا چاہتی ہے؟ کیا مرکزی حکومت غیر بی جے پی حکمراں ریاستوں اور ان کی اسمبلیوں کو پنگو بنانا چاہتی ہے؟ اس معاملے میں وزیر اعلیٰ اسٹالن نے غیر بی جے پی حکمراں ریاستوں کو متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم پر آنے کی گزارش کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا ملک ایک اہم موڑ پر ہے۔
سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا بی جے پی حکمراں مرکزی حکومت آئین میں موجود طاقتوں کی تقسیم کو بگاڑنا چاہتی ہے، تاکہ اپوزیشن پارٹیوں کی حکومت والی ریاستوں کو کمزور بنایا جا سکے۔ یہ ریاست کی خود مختاری کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں سبھی غیر بی جے پی حکمراں ریاستوں اور پارٹیوں کے لیڈران سے اس قانونی اور آئین کو بچانے کی جنگ میں متحد ہونے کی اپیل کرتا ہوں۔ ہم اس جنگ کو پوری طاقت سے لڑیں گے اور تمل ناڈو جیتے گا۔