بھوپال:21مارچ:آج نماز جمعہ سے قبل موتی مسجد بھوپال میں قاضی شہر مولانا سید مشتاق علی ندوی حفظہ اللہ نے اہل ایمان پر سایہ فگن ماہ رحمت و برکت کی قدر و منزلت اور اہمیت و افادیت پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ رمضان اپنی عظمت و برکت ، رحمت و مغفرت اور فضیلت و اہمیت کے اعتبار سے دوسرے تمام مہینوں سے افضل و ممتاز ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید کا نزول ہوا ، یہی وہ مہینہ ہے جس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جا تے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی آمد سے پہلے ہی اس کی تیاری شروع فرما دیتے تھے اور جب رمضان المبارک کی آمد ہوجاتی آپ کی عبادت و ریاضت ، ذکر ودعا اور تلاوت قرآن میں عام دنوں کی نسبت کافی اضافہ ہو جاتا۔
رسول رحمت ﷺ نے اپنے صحابہ کو خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : تمہارے پاس برکت والا مہینہ آچکا ہے۔ اللہ پاک نے تم پر اس کے روزے فرض فرمائے ہیں اور تمہارے لئے اس مہینے کا قیام(یعنی نمازِ تراویح) سنت ہے۔ جب ماہِ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروا زے کھول دیئے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں ۔ اس ماہ مبارک میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔
یوں تو سید الانبیاء ﷺ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اپنی عبادات میں اضافہ فرمادیا کرتے تھے مگر رمضان کے آخری عشرے میں عبادات میں ہمہ تن مشغول ہوجایاکرتے تھے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صِدّیقہ ؓ فرماتی ہیں جب ماہ رمضان آتا تو تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم بیس دن نماز اور نیند کو ملاتےیعنی نماز اور آرام دونوں کرتے تھے پس جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو اللہ پاک کی عبادت کیلئے پوری طرح کمر بستہ ہوجاتے ۔
تلاوت قرآن اور صدقہ و خیرات کرنا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ کا حصہ تھا ، صدقہ و خیرات کا عالم یہ تھا کہ کوئی سوالی در سے خالی نہیں لوٹتا تھا لیکن رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کی مقدار اور تلاوت قرآن باقی مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔
آخری عشرہ میں ایک اہم عمل اور خاص عبادت اعتکاف ہے۔ اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی ہر طرف سے کنارہ کش اور یکسو ہوکر اور تمام علائق دنیا سے منقطع اور الگ تھلگ ہوکر بس اللہ تعالیٰ سے ہی لو لگائے ،اس کے در پر پڑ جائے اور سب سے الگ تنہائی و خلوت میں اس کی عبادت اور اس کے ذکر و فکر اور تسبیحات میں مشغول ہوجائے۔
قاضی شہر نے اعتکاف کی اہمیت و منزلت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اس ماہ کے عشرہ آخر جو آج سے ہی شروع ہورہا ہے ،اعتکاف کرنے والے معتکف کیلئے یہ کتنی خوش نصیبی اور سعادت کی بات ہے کہ وہ دس دن رات تک اللہ کی میزبانی میں ہوتا ہے۔ اعتکاف میں بیٹھنے والوں کو دس دن دس رات فرشتوں کی ہم نشینی حاصل ہوتی ہے، اس لئے کہ مساجد میں جم کر رہنے والوں کے ہمراہ فرشتے ہوتے ہیں۔ مساجد شیطان سے بچنے اور ان سے محفوظ رہنے کیلئے بہت مضبوط قلعے اور پناہ گاہیں ہیں۔ معتکف کو اعتکاف کی برکت سے یہ محفوظ قلعے اور پناہ گاہیں حاصل رہتی ہیں۔
رسول کریمﷺ نے فرما یاشب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔” شب قدر کا تعین نہ کرنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کیلئے بڑی حکمت ہے۔ اگر شب قدر کا علم باقی رکھا جاتا اور بتا دیا جاتا تو پورا رمضان المبارک سستی اور غفلت میں گزرتا اور صرف شب قدر میں عبادت کی جاتی یا جس کی شب قدر بغیر عبادت کے گزر جاتی تو وہ باقی رمضان المبارک کے ایام دْکھ اور افسوس میں گزارتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت نے گوارا نہ کیا کہ اس عظمت والی رات کے معلوم ہونے کے بعد کوئی گناہ پر جرأت کرے کیوں کہ اس شب کے پانے پر ہزار مہینوں کی عبادت کا ثواب ملتا ہے۔ اب انسان شب قدر کی تلاش میں ہر وقت عبادت و ریاضت میں اعتکاف کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ وقت اللہ تعالیٰ کی بندگی و عبادت میں گزارتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ”جو شخص شب قدر سے محروم ہوگیا، گویا پوری بھلائی سے محروم ہوگیا اور شب قدر کی خیر سے وہی محروم ہوتا ہے جو کامل محروم ہو۔’
قاضی شہر نے فرمایا کہ اگرمحرومی کے حوالے سے بات کی جائے تو اپنا شہر بھوپال بھی محرومین کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے ۔اس شہر میں بھی ہم لوگوں میں ایسے افراد بکثرت موجود ہیں جنہیں ماہ مقدس کی حرمت کا خیال نہیں اور اس ماہ ملنے والے انعام الٰہی کی پرواہ نہیں ۔رمضان کی نسبت سے شہر میں جہاں ایک طرف افطار پارٹیوں کا خوب اہتمام ہوتا ہے وہیں بھوپال کا ہر بازار مغرب بعد ہم لوگوں سے آباد رہتا ہے ۔ذرا سوچیں تو سہی رمضان ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے اور ہم کیا کررہے ہیں ۔جگہ جگہ منعقد کی جانے والی افطار پارٹیاں اپنی طوالت کے سبب نماز مغرب کے فوت ہونے کا سبب بنتی ہیں ، لوگ لمبی ضیافت کے تقاضے پورے کرنے میں نماز مغرب ترک کر بیٹھتے ہیں ،اب آپ ہی بتائیں ایسی دعوت ہمارے لئے کتنی مفید ہے ؟اسی طرح بازاروں کا حال ہے ہمارے مسلمان بھائی اور بالخصوص مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں مبارک گھڑی کا ایک بڑا حصہ خریداری میں گزار دیتی ہیں جو یقیناً لمحہ فکریہ ہے ، ہمیں رمضان کے آخری عشرے کو اللہ کی رضا کیلئے عبادات و تلاوت اور تسبیح و اذکار کیلئے وقف کردینا چاہئے ۔ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں کہ عشرہ ٔ اخیرہ کے کتنے دن ہمیں میسر آئیں گے ۔ مجھے یاد ہے کہ میں ہر رمضان میں اس امر کی یاد دہانی کراتا ہوں کہ ہمیں جہاں سال بھر تضعیع اوقات سے منع کیا گیا ہے وہیں رمضان میں خاص طور پر اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اوقات یاد الٰہی میں گزاریں مگر ہم ایسا نہیں کرتے ہیں ، مغرب بعد ،عشاء بعد دیر رات تک شہر کے چائے خانے ہم سے آباد رہتے ہیں ۔اللہ ہمیں وقت کی قدر دانی کی سمجھ عطا فرمائے ۔میرے معزز سامعین ،ماہ رمضان ہمارے لئے انمول تحفہ ہے،دن روزے میں گزارنا ہے تو راتیں عبادتوں میں ۔گویا اس ماہ کی ہر گھڑی ہمارے لئے رحمت ہے ۔اس ماہ ایک بڑا تحفہ شب قدر بھی ہے ۔ سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے رسول کریم ﷺ سے عرض کیا: یارسول اللہ! اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تواللہ تعالیٰ سے کیا دعا مانگوں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”یااللہ! بے شک! تو معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے پس تو مجھے معاف فرما۔”
اہل ایمان کو اس رات میں نماز، تلاوت، درود شریف اور دعاؤں کا خوب خوب اہتمام کرنا چاہئے۔ اس طرح ہر قسم کے اعمال کا ثواب حاصل ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ان قیمتی لمحات سے بھرپور استفادہ کرنے اور سعادتیں حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین