بھوپال :02؍مئی (پریس ریلزی) گزشتہ دنوں کشمیر کے پہلگام میں پیش آنے والا دہشت گردانہ حملہ ایک بار پھر ہمارے ملک کو لرزا گیا۔ اس حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے، اور جو بھی اس میں ملوث ہیں، وہ نہ صرف ملک بھارت کے دشمن ہیں بلکہ انسانیت کے بھی دشمن ہیں۔
پہلگام میں ہوئے حملے نے ملک کی سیکیورٹی ایجنسیوں پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ آخر حملہ کیسے ہو گیا جب کہ وہاں سیکیورٹی ہائی الرٹ پر تھی؟ کیا وہاں سیکورٹی موجود نہیں تھی یا انٹیلیجنس ایجنسیوں نے پہلے سے کوئی اطلاع نہیں دی؟ یہ واقعہ واضح طور پر انٹیلیجنس کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا اس دوران اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر (SOP) اور روڈ اوپننگ (ROP) کے اصولوں پر صحیح طریقے سے عمل ہوا یا نہیں؟ اگر یہ سب انتظامات موجود تھے تو پھر حملہ کس طرح ممکن ہوا؟ ان تمام سوالوں کے جوابات عوام جاننا چاہتی ہے اور اس کے لیے حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیوں کو جواب دہ ہونا چاہیے۔پہلگام حملہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی 2019 میں پلوامہ میں دل دہلا دینے والا حملہ ہو چکا ہے، جس میں 40 سے زائد جوان شہید ہو گئے تھے۔ آج تک اس حملے کی مکمل تحقیقات سامنے نہیں آ سکی ہیں، اور یہ نہیں بتایا جا سکا کہ اس کے پیچھے اصل سازش کرنے والے کون تھے۔ ہر حملے کے بعد صرف مذمت اور بیان بازی کی جاتی ہے، لیکن زمینی سطح پر کوئی ٹھوس کارروائی نظر نہیں آتی۔ یہ حکومت کی مکمل ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسے حملے صرف ہمارے جوانوں کی قربانیوں کو ضائع کرتے ہیں بلکہ پورے نظام پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت اور سیکیورٹی ایجنسیاں محض دعووں سے باہر نکل کر اصل مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں اور اپنی ذمہ داری قبول کریں۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی کچھ حلقے بغیر تحقیق، بغیر سوچے سمجھے اسلام اور مسلمانوںکو نشانہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم، نیوز چینلز پر یکطرفہ بحثیں، اور سیاسی بیان بازیاں،یہ سب مل کر ایک ایسا زہریلا ماحول بنا رہے ہیں جس سے بھارت کی گنگا جمنی تہذیب کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہ انسانیت کے دشمن ہیں۔ جو معصوموں کا خون بہاتے ہیں، وہ نہ مسلمان کہلانے کے لائق ہیں، نہ کسی اور مذہب کے۔ ہر بار جب کشمیر یا بھارت کے کسی بھی حصے میں دہشت گرد حملہ ہوتا ہے، تو اس کے پیچھے پڑوسی ملک کی سرپرستی یا خاموشی صاف دکھائی دیتی ہے۔اب حکومت ہند کو منھ توڑ جواب دینا چاہئے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اُنہیں ختم کرنا چاہئے جو اب تک حکومت ہند نے نہیں کیا ہے۔
ہمیں دنیا کو صاف لفظوں میں یہ بتانا ہوگا کہ جو ملک دہشت گردوں کو پناہ دے، اس کی مذمت عالمی سطح پر ہونی چاہیے، اور اس کا اصل چہرہ بے نقاب کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ا س لئے ہم اس حملے کے حوالے سے پاکستان کی سخت الفاظوں میں مذمت کرتے ہیں اور آگاہ کرتے ہیں کہ اپنی ان حرکتوں سے باز آجائیں یہی دونوں ملکوں کے حق میں مفید ہے۔کیا دہشت گردی کا کوئی مذہب ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب اسلام کی بنیادی تعلیمات میں بھی ملتا ہے۔ اسلام کی مقدس کتاب قرآن میں صاف طور پر کہا گیاہے کہ ’’جس نے کسی ایک انسان کو ناحق قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا‘‘ اسی طرح پیغمبر محمد ﷺ نے فرمایا:’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں‘‘ ۔ الغرض یہ کہ اسلام تو سلامتی، محبت، امن، عدل، رواداری اور انسانیت کا پیغام دیتا ہے۔ جنگ کے دوران بھی بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور درختوں تک کو نقصان نہ پہنچانے کی تعلیم دی گئی۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ جو لوگ معصوم انسانوں کی جان لیتے ہیں، وہ اسلام کے ماننے والے کیسے ہو سکتے ہیں؟
خلاصہ یہ ہے کہ کچھ مخصوص چینلز اور سوشل میڈیا ہینڈلز نے ایک روایت بنا لی ہے جیسے ہی کوئی واقعہ ہوتا ہے، بغیر کسی ثبوت کے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہی نہیں’’جہادی‘‘، ’’اسلامک ٹیرر‘‘، ’’مدرسہ ٹیررزم‘‘ جیسے الفاظ سنسنی پھیلانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، جس سے پورا معاشرہ تقسیم ہوتا جا رہا ہے۔جو ملک کی سالمیت کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ یہ رویہ نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے، بلکہ ملک کے سیکولر آئین، جمہوریت اور بھائی چارے کے خلاف بھی ہے۔جب نفرت پھیلانے والے عناصر کھلے عام مسلمانوں کو ”دیش دروہی”، ”پاکستانی” یا ”دہشت گرد” (آتنکوادی) کہہ کر بدنام کرتے ہیں، اور حکومت کی طرف سے مکمل خاموشی اختیار کی جاتی ہے، تو یہ خاموشی خود ایک خطرناک پیغام میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ حکومتِ وقت کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ ہر شہری کو برابر کا درجہ دے، اور مذہب، ذات یا زبان کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز نہ کرے۔ مگر جب وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ اور دیگر بااختیار افراد صرف ایک طبقے کی تعریف کرتے ہیں اور دوسروں کی تذلیل پر خاموش رہتے ہیں، تو یہ طرزِ عمل سماجی ہم آہنگی کو زہر آلود کر دیتا ہے، اور ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیتا ہے۔سب سے زیادہ زہر فشانی اس ملک کے ذمہ داران برسر اقتدار پارٹی کے رہنمائوں نے کی ہے جس میں وزیر اعظم ،وزراء اعلیٰ، وزراء داخلہ سب شامل ہے۔ منووادی پونجی وادی عناصر خود ہی مسلم بن کر مسلمانوں کے بھیس میں ایسا کام کر رہے ہیں جس سے مسلم سماج بدنام ہو سکے۔ کئی مقدمے بھی ان کے خلاف قائم ہوئے ہیں ۔ اسلئے مسلم سماج کو خاص کر کے مسلم نوجوانوں کو محتاظ رہنا چاہئے۔
گائے کے تحفظ(گئو رَکشا) کے نام پر نوجوانوں کو راستو میں روک کر مارا پیٹا جاتا ہے، ان سے ان کی شناخت پوچھی جاتی ہے، اور صرف شبہ کی بنیاد پر انہیں جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اب معمول بن چکا ہے۔ آگرہ، بھوپال، لکھنؤ، اور دیگر شہروں میں پیش آنے والے حالیہ واقعات اس سچائی کی کھلی گواہی دے رہے ہیں۔بھوپال میں مسلم پولیس اہلکار کو ان کے نام کی بنیاد پر مارا پیٹا گیا، کپڑے پھاڑ دئیے گئے۔ صرف مسلمان ہی نہیں، بلکہ دلت طبقے کے افراد کو بھی سرعام بے عزت کیا جا تا رہا ہے جس میں اُجین، برہانپور، رتلام وغیرہ کے واقعات ہمارے سامنے مثال ہیں، دلتوں پر حملے ہو رہے ہیں تو کبھی نیچی ذات کا بتا کر گھوڑے پر نہیں چڑھنے دیا جاتا ، کبھی مونچھ رکھنے پر تو کبھی دلت نوجوان پر پیشاب کرکے ذلیل کیا گیا۔
انصاف کی دہلیز تک ان کی رسائی دن بہ دن محدود کی جا رہی ہے۔ یہ سب واقعات صرف کسی ایک گروہ پر ظلم نہیں، بلکہ جمہوریت، آئین اور بنیادی انسانی حقوق پر حملہ ہیں۔
ایسے میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب ملک کے 40 کروڑ شہریوں کو دانستہ طور پر دوئم درجے کا شہری بنا دیا جائے، ان کے ساتھ امتیاز، شک، نفرت اور بے اعتمادی کا سلوک کیا جائے، تو کیا ایسا ملک واقعی ”وشوگرو” بن سکتا ہے؟ ایک ایسا ملک جو اپنے ہی لوگوں کو انصاف، مساوات اور احترام دینے سے قاصر ہو، وہ دنیا کو کس بنیاد پر قیادت دے سکتا ہے؟ وشوگرو بننے کا خواب تبھی ممکن ہے جب ہر مذہب، ہر ذات، ہر زبان اور ہر علاقے کے شہری کو مساوی حیثیت حاصل ہو۔ ورنہ یہ خواب محض ایک نعرہ بن کر رہ جائے گا۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وہی ملک ہے جہاںخواجہ معین الدین چشتیؒ، نانک اور سنت کبیر ایک ساتھ محبت کا پیغام دیتے تھے، جہاں عید اوردیوالی ایک ساتھ منائی جاتی تھیں، جہاں مسجد کے صحن میں ہندو دوست پانی پیتے تھے اور ہندو کے گھر میں مسلمان دوست روٹی کھاتا تھا، یہی گنگا-جمنی تہذیب بھارت کی اصل طاقت ہے، جسے آج کچھ لوگ توڑنا چاہتے ہیں۔ مگر ہمیں یہ تہذیب بچانی ہے، نفرت کے مقابلے میں محبت کا پیغام عام کرنا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم ہر دہشت گردانہ واقعہ کی مذمت ایک انسان کی حیثیت سے کریں، نہ کہ کسی مذہب کے ماننے والے کی حیثیت سے۔ مسلمانوں کو بار بار صفائی دینے پر مجبور کرنا ناانصافی ہے۔ ملک کے ہر شہری کو چاہیے کہ وہ میڈیا اور سیاسی ایجنڈے کے جال میں نہ آئے۔ اگر ہمیں اس ملک کو بچانا ہے، تو ہمیں نفرت کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی۔ چاہے وہ نفرت کی آگ کسی بھی مذہب، پارٹی یا پلیٹ فارم سے آ رہی ہو اور اس کی ذمہ داری برسراقتدار پارٹی کی ہے جو اپنے فرائض سے ہٹ کر پارٹی کے نیتا خود ہی زہر پھیلانے کا کام کر رہے ہیں۔اخیر میں یہ کہ اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنا ایسا ہی ہے یسے محبت کو نفرت سے جوڑ دینا۔ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ ہم بٹ جائیں، ملک تقسیم ہو جائے مگر ہمیں چاہیے کہ ہم متحد ہو کر رہیں کیونکہ بھارت صرف زمین کا ایک ٹکڑا نہیں، بلکہ محبت، بھائی چارہ اور انسانیت کا احساس ہے جسے ہم سب بھارتیوں کو مل کر بچانا ہے ۔