انمول سہی نایاب سہی بے دام و درم بک جاتے ہیں
بس پیار ہماری قیمت ہے مل جائے تو ہم بک جاتے ہیں
سکوں کی چمک پہ گرتے ہوئے دیکھا ہے شیخ و برہمن کو
پھر میرے کھنڈر کی قیمت کیا جب دیر و حرم بک جاتے ہیں
بھارت کے ممتاز ترین اردو زبان کے شاعر، اپنی غزل گوئی اور درد انگیز ترنم کی وجہ سے ملک گیر شہرت کے مالک، سامعین کے دِلدادہ و پسندیدہ شاعر،بھارت کے مشاعروں کی کامیابی کے ضامن سمجھے جانے والے ہر دل عزیر شمیم کرہانی کا آج یومِ پیدائش ہے۔ اس موقع پر ہم تمام اہل وطن کی جانب سے انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔شمیم کرہانی کی پیدائش 8 جون 1913ء کو موضع پارہ ضلع غازی پور میں ہوئی۔شمیم کرہانی کا پیدائشی نام سید شمس الدین حیدر تھا جبکہ وہ شمیم کرہانی کے نام سے مشہور ہوئے۔ان کے والد بھی شعر و ادب کے دلدادہ تھے۔خاندان کے کچھ بزرگ باقاعدہ شاعری کرتے تھے، اِسی لیے ادبی و شاعرانہ ماحول میں پرورش ہوئی۔19 مارچ 1975ء میں آپ کی وفات ہوئی۔
شمیم نے ابتدائے شاعری میں اپنی کچھ نظمیں اور غزلیں علامہ آرزوؔ لکھنؤی کو دکھائیں۔ لیکن علامہ نے یہ کہہ کر اِس سلسلے کو منقطع کردیا کہ: ’’اِن کی فکر ایک بحرِ رواں ہے، یہ آپ اپنی راہ نکال لیں گے‘‘۔ علامہ آرزوؔ لکھنؤی کی یہ پیشگوئی صحیح ثابت ہوئی اور شمیم اپنے دور کے نظم و غزل کے معتبر و مستند شاعر تسلیم کیے جانے لگے۔
شمیم کرہانی نے مولوی، فاضل کامل اور منشی کے امتحانات پاس کرکے علی گڑھ سے انٹرمیڈیٹ کا اِمتحان پاس کیا۔ کچھ عرصہ اعظم گڑھ کے ڈی اے وی کالج میں اردو، فارسی کے معَلَّم کے فرائض سرانجام دئیے۔ 1950ء میں شمالی ہند کی قدیم ترین و تاریخ ساز تعلیمی اِدارے اور دہلی کے مشہور اینگلو عربک اسکول کے تدریسی عملے میں شامل ہوگئے اور تادمِ وفات تک اِسی اِدارے سے وابستہ رہے۔
شمیم کرہانی نے ترقی پسند تحریک سے وابستگی اختیار کی۔ 1942 ء کی انگریزو بھارت چھوڑو تحریک کے دوران وہ روزانہ ایک باغیانہ نظم لکھ لیتے تھے۔اس دوران لکھی گئیں ان کی نظمیں ’روشن اندھیرا‘ نام کے شعری مجموعہ میں شائع ہوئی ہیں۔ 1948ء میں جب مہاتما گاندھی کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تو انہوں نے تاریخ میں رقم کرنے والی نظم تحریر کی’جگاؤ نہ باپو کو نیند آگئی ہے‘۔یہ نظم عوام کے جذبات کو چھو رہی تھی اور ان کے دلوں میں تیزی سے اتری جارہی تھی۔جب پنڈت جواہر لال نہرو نے یہ نظم سنی تو بہت متاثر ہوئے اورلکھنؤ میں کانگریس کے انتخابی اجلاس میں اس نظم کو سنانے کی درخواست کی۔
شمیم کرہانی کو کئی ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا جا چکا ہے۔’عکس گل‘ پر 1964ء میں اترپردیش حکومت نے ایوارڈ سے نوازا تھا۔’حریفِ نیم شب‘پر 1972ء میں اترپردیش اردو اکیڈمی نے ایوارڈ عطا کیاتھا۔1972ء میں ہی آپ کو سروپ نارائن اردو نظم ایوارڈ ملا تھا۔ اور’رنگا کے گیت‘ پر حکومت ہند کی جانب سے آپ کو ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے۔شمیم کرہانی تاعمر اردو اور اردو شاعری کی خدمت کرتے رہے تھے۔1975ء میں ایوان غالب کے مشاعرے میں شریک ہوئے،کیفیؔ اعظمی سے گلے ملتے ہوئے اچانک طبیعت خراب ہوگئی۔
قریب ہی واقع اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں لے جایا گیا لیکن وہ ٹھیک نہیں ہوسکے ۔ یہ 19 مارچ کا دن تھا جس نے اردو دنیا سے ایک عظیم شاعر چھین لیا۔
آج جب ہم شمیؔم کرھانی کی یومِ پیدائش منا رہے ہیں، تو صرف ایک شاعر کی یاد منانا مقصد نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس موقع پر ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ان کے خیالات، نظریات اور جذبے آج کے بھارت کے لیے کس قدر اہم ہیں۔
ملک ایک بار پھر مذہبی منافرت، سماجی ناہمواری، طبقاتی تفریق اور اظہار کی آزادی پر قدغن جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ ایسے میں شمیم کرھانی کی یہ آواز ایک روشنی کی کرن بن کر اُبھر سکتی ہے:
اب بھی ہم سوچتے رہ جائیں گے، اور کارواں گزر جائے گا
یہ شعر آج کی سیاسی بے حسی اور عوامی خاموشی پرصادق آرہا ہے۔ جب لوگ سماج کے مسائل پر آواز بلند نہیں کرتے تو ظلم کے قافلے بغیر رکاوٹ کے آگے بڑھتے ہیں۔
شمیم کرھانی کا یومِ پیدائش ہمیں محض ماضی کی یادگار کے طور پر نہیں منانا چاہیے بلکہ اسے ایک فکری تحریک کا دن بنانا چاہیے۔ اُن کے خیالات کو آج کی صحافت، تعلیم، سیاست اور سماجی تحریکوں کا حصہ بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔