نئی دہلی، 3 مئی (یو این آئی) معروف شاعر اور نثر نگار ڈاکٹر ماجدؔ دیوبندی کی نثر کی تیسری کتاب’میری کاوشیں‘کی رسم اجراء کی تقریب میں سابق مرکزی وزیرِ خارجہ اور معروف وکیل سلمان خورشید نے کہا کہ اپنے خودداری اورحووصلوں کی تحریروں سے ماجدؔ دیوبندی نے عوم کو چونکایا ہے اور آج وہ نہ صرف شاعری بلکہ اپنی صحافت،کالم نگاری اور نثر لکھنے میں ماہر نظر آتے ہیں جس کی مثال ان کی تازہ تصنیف ہے ’میری کاوشیں‘ ہے۔ادبی اور ثقافتی تنظیم’میزان‘ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب انہوں نے ماجد دیوبندی کے حوالے سے خوب گفتگو کی اور کہا کہ میں اپنے والد مرحوم خورشید عالم خان کے زمانے سے ان کو سن رہا ہوں جب وہ اسی تنظیم ”میزان“ کی طرف سے منعقد وجامعہ میں ۵۲ سال قبل ایک مشاعرے میں صدارت کرنے آئے تھے۔انہوں نے جذباتی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسائل ہر شخص کے ساتھ آتے ہیں جو کچھ کام کرتا ہے،اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔انسان کو اس کا کام زندہ رکھتا ہے۔میم افضل نے ماجدؔ دیوبندی کی شاعری، صحافت اور نثر پر گفتگو کی اور انہیں خراج تحسین پیش کیا کہ ان کی یہ دسویں اور نثر کی تیسری کتاب شائع ہو کر منظر عام پر آئی ہے۔انہوں نے واضح طور پر دعائیہ لہجے میں کہا کہ ماجد صاحب کو میں پچھلے تیس سا سے دیکھ رہا ہوں۔ پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ ماجدؔ دیوبندی تنہا ایسے شاعر اور نثر نگار ہیں جو بریلویوں میں بھی بے حد پسند کئے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ماجد جہاں جہاں رہے اپنی خودداری اور ایمانداری کی پہچان کے ساتھ اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔شاعری میں علامہ اقبال کی فکر کے نمائندے کے طور پر انہوں نے پوری دنیا سے خود کو منوایا ہے لیکن نثر نگاری میں بھی وہ کسی سے کم نہیں جس کی مثال آج ان کی تیسری نثر کی کتاب ”میریکاوشیں“ کی اشاعت ہے۔سابق صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کے پریس سکریٹری ایس۔ایم۔خان نے ایک انگریزی کتاب کا ذکر کیا کہ اس میں ماؔجد دیوبندی کی اردو شاعری کے حوالے سے انگریزی میں یونیورسٹی کے بہت سے موضوعات پڑھائے جاتے ہیں جس سے ماجد صاحب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی نسل کے لیے ماجدؔ دیوبندی ایک با وقار شخصیت کا نام ہے۔
ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے اپنی تقریر میں ماجدؔ دیوبندی سے اپنے گزشتہ ۰۲ سال کے مراسم اور ان کے ساتھ مل کر بہت سے ادبی کام کرنے کے حوالے سے کہا کہ ان میں جنون کی حد تک کام کرنے کا جذبہ ہے جو ان کو کامیاب کرتا ہے۔
ڈاکٹر سید فارووق نے ڈاکٹر ماجدؔ دیوبندی کو ان کی نئی کتاب پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اور ماجد صاحب کا تعلق پچھلے تیس سالوں سے ہے اور وہ انہیں اپنا عزیز ترین سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ”میزان“ کے لیے پہلے دن سے وہ ان کے شانہ بشانہ رہے ہیں۔ماجد دیوبندی کا ایک شعر پڑھ کر انہوں نے کہا کہ حوصلوں سے انسان بڑا بنتا ہے اور ماجد صاحب نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور آج وہ ملک کے اہم ترین چند ایک شعراء میں شمار کئے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر اطہر فاروقی نے نہایت شائستہ اردو میں اظہار ِخیال کرتے ہوئے کہا اپنے بے پناہ جد و جہد اور محنت سے ماجد صاحب نے اپنا اہم ترین مقام بنایا ہے جومعمولی بات نہیں ہے۔کتاب کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ نہایت اہم شخصیات پر مضامین اس میں موجود ہیں جو نئی نسل اور اردو داں طبقے کے لیے یقینا مفید ثابت ہوں گے۔
ڈاکٹر سید احمد خان نے مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ فخر حاصل کہ وہ ماجد صاحب کو ”حفیظ میرٹھی“ ایوارڈ سے نواز چکے ہیں۔
بعد ازاں ایک مشاعرہ بھی منعقد کیا گیا جس کی صدارت طالب رامپوری نے کہ جبکہ نظامت کے فرائض معروف ناظم معین شاداب نے انجام دئے۔جن شعرا نے شرکت کی ان میں طالب رامپوری، ڈاکٹر ماجدؔ دیوبندی، ڈاکٹر مصور رحمان، غفران اشرفی،ریاض ساغر،اعجاز انصاری،معین شاداب، وارث وارثی، شرف نانپاروی، عرفان اعظمی، انوار الحق شاداں، ارشاد عزیز بیکانیری، حشمت بھاردواج، مرزا ہمدم، سریندر شجر، مرزا انس بیگ، عبد الرب حماد، رضوان امروہی، ڈاکٹر وسیم راشد، ڈاکٹر سپنا احساس، ریشمہ زیدی اور سرتا جین کے نام شامل ہیں۔
قبل ازیں معروف صحافی ڈاکٹر نثار احمد خان نے ڈاکٹر ماجدؔ دیوبندی کے حوالے سیر حاصل گفتگو کی اور ان کی صحافت، شاعری اور نثر پر تفصیل سے مقالہ پیش کیا۔