بھوپال:23؍مئی:بہار کے سیاسی منظرنامے میں ایک بار پھر انتخابات کی گونج سنائی دے رہی ہے، لیکن اس گونج میں جو طبقہ سب سے زیادہ خاموش ہے، وہ ہیں ’’پسماندہ طبقات‘‘جن کی تعداد کروڑوں میں ہے مسلم آبادی کا ۹۰فیصد ہے، لیکن آواز کہیں سنائی نہیں دیتی۔ ریاست کی اکثریتی آبادی ہونے کے باوجود یہ طبقہ آج بھی قیادت، اتحاد اور جرأت مندانہ مطالبات سے محروم ہے۔
بہار میں او بی سی،دلت، اور دیگر پسماندہ برادریوں کی مجموعی آبادی 80% سے بھی زیادہ ہے۔ ان میں مسلم پسماندہ ذاتیں جیسے مومن، انصاری، رائینی، قریشی، شاہ، فقیر، رنگریز اور دیگر ہنر مند طبقات شامل ہیں۔ یہ برادریاں دہائیوں سے محنت، ہنر اور خدمت میں تو آگے رہی ہیں، مگر سیاست میں ہمیشہ پچھلی قطار میں رہی ہیں یا انہیں پچھے رکھا گیا ہے نیز ان کی خود کی حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی بہت پیچھے ہیں۔قابل ذکر ہے کہ بہار میں کئی پسماندہ تنظیمیں ہیں، مومن انصار کانفرنس جیسی پرانی تنظیم بھی موجود ہے، جنہیں کبھی مسلم پسماندہ طبقات کی نمائندہ تنظیم سمجھا جاتا تھا، آج بے جان سی ہو چکی ہیں۔ جلسے تو ہوتے ہیں، تقریریں بھی، مگر کیا ان میں کبھی حکومت سے ریزرویشن، تعلیم، یا روزگار پر دو ٹوک بات ہوتی ہے؟ اسی طرح ’’رائینی سماج کی تنظیمیں‘‘ اور دیگر برادری کی نمائندہ انجمنیں، جو صرف سالانہ جلسے، اعزازات یا تعریفی اسناد بانٹنے تک محدود ہو چکی ہیں۔ کیا صرف یہی ان کے وجود کا مقصد تھا؟ آج ہر باشندہ سوال پوچھنے لگا ہے کہ یہ تنظیمیں صرف اپنی قیادت بچانے کے لیے قائم ہیں یا واقعی قوم کی آواز بننے کی صلاحیت ان کے اندر ہے؟
پسماندہ طبقات کے درمیان آج ایک بھی ایسا چہرہ نظر نہیں آتا جسے تمام برادریاں اپنااجتماعی قائد تسلیم کریں۔ مومن برادری کے پاس الگ لیڈر، رائینی برادری کے الگ، قریشیوں کے الگ۔تو پھر اس بکھرے ہوئے قافلے کو منزل کیسے ملے گی؟
یہ تمام رہنماصرف اپنی ذات، اپنی تنظیم یا ذاتی فائدے کی سیاست کر رہے ہیں۔ عوام میں مایوسی ہے، اور نوجوانوں میں بے چینی، کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے نام پر تنظیمیں تو قائم ہیں، مگر ان کے مسائل کا کوئی حل نہیں نکلتا۔
آئندہ بہت ہی جلد صوبے بہار میں اور اس کے بعد بھی دیگر کئی جگہوں پر انتخابات ہونے والے ہیں ۔انتخابات کے موسم میں ہر طبقہ اپنی مانگیں لے کر سامنے آتا ہے۔ اعلیٰ ذاتیں اپنے مفادات کے لیے متحد ہو جاتی ہیں،لیکن مسلم پسماندہ طبقات خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ ہے 1950کا صدارتی حکم، جس کی بنیاد پر تمام طرح کی تفریق کا سامنا آج پسماندہ برادریوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
بھارت کے آئین نے ہر شہری کو مساوی حقوق، مذہبی آزادی اور سماجی انصاف کا وعدہ کیا تھا۔ مگر 10 اگست 1950 کو ایک صدارتی حکم نامہ جاری ہوا، جس نے اس وعدے پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ یہ حکم نامہ اُن دلت ذاتوں کو ”شیڈولڈ کاسٹ” (Scheduled Castes) یعنی درج فہرست ذاتوں کا درجہ دیتا ہے جو صرف ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہوں۔ بعد میں سکھ (1956) اور بدھ (1990) دلتوں کو بھی شامل کیا گیا، لیکن مسلم اور عیسائی دلت آج بھی اس دائرے سے باہر ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 341(1) کے تحت درج فہرست ذاتوں کی فہرست بنانے کی اجازت دی گئی، لیکن 1950 کے صدارتی حکم نامے کے ذریعے صرف ہندو دلتوں کو اس فہرست میں شامل کیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ جب ذات ایک سماجی درجہ بندی ہے، اور مذہب کے باوجود پسماندگی، پیشے وغیرہ کی نوعیت یکساں ہے، تو صرف مذہب کی بنیاد پر کیوں امتیاز برتا گیا؟
اگر ہم بھارت میں مسلمانوں کی بات کریں تو مسلم معاشرے میں بھی کئی دلت ذاتیں پائی جاتی ہیں، جیسے:ہلالخور، بھنگی، دھوبی، نائی، کمہار، موچی، جولاہے، قصائی، کنجڑے، نٹ، سلمانی وغیرہ۔
یہ ذاتیں صدیوں سے وہی کام کر رہی ہیں جو ہندو دلت کرتے آئے ہیں، مگر انہیں صرف اس لیے SC/ST کا درجہ نہیں دیا گیا کیونکہ وہ مسلمان یا عیسائی ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں ریزرویشن، تعلیم، ملازمت، سیاسی نمائندگی، اسکالرشپ اور ترقیاتی اسکیموں میں شامل نہیں کیا گیا۔
بھارت میں 84 لوک سبھا اور تقریباً 1300 اسمبلی حلقے درج فہرست ذاتوں کے لیے مخصوص ہیں۔ان حلقوں سے صرف ہندو، سکھ یا بدھ دلت ہی انتخاب لڑ سکتے ہیں۔مسلم یا عیسائی پسماندہ طبقات، جو سماجی حالات میں اُن سے مختلف نہیں، ان حلقوں سے الیکشن نہیں لڑ سکتے۔اس آئینی امتیاز کی وجہ سے کئی ایم پیز اور تقریباً 1300 ایم ایل ایز کے عہدے پسماندہ مسلمانوں سے چھن جاتے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ قانون سماجی انصاف کی آڑ میں مذہبی امتیاز کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حکومت نے مذہب کی بنیاد پر SC/ST کی تعریف طے کرکے ایک مخصوص مذہبی برادری کو سماجی انصاف سے محروم رکھاہے۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ(2006) میں مسلم پسماندہ طبقات کی بدترین حالت کا انکشاف کیاگیا۔رنگناتھ مشرا کمیشن (2007) میں سفارش کی کہ مذہب کی بنیاد پر SC/ST کا امتیاز ختم کیا جائے اور مسلم و عیسائی دلتوں کو برابر کا درجہ دیا جائے۔لیکن ان سفارشات کو آج تک عمل میں نہیں لایا گیا۔ سپریم کورٹ میں معاملہ 2004 سے زیرِ التوا ہے، مگر حکومتوں نے سنجیدگی نہیں دکھائی۔
الغرض یہ کہ1950 کا صدارتی حکم نامہ اپنے وقت میں شاید وقتی سیاسی مصلحت کا نتیجہ رہا ہو، مگر آج یہ ایک غیر آئینی امتیازبن چکا ہے۔ اگر بھارت واقعی ایک سیکولر اور مساوات پر مبنی جمہوری ملک ہے، تو اسے مذہب کی بنیاد پر دلتوں میں فرق کرنا بند کرنا ہوگا۔مسلم اور عیسائی پسماندہ طبقات کو بھی SC کا درجہ دے کر، انہیں وہی حقوق دیے جائیں جو دیگر دلتوں کو حاصل ہیں۔یہی ایک سچا اور مکمل سماجی انصاف ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ کیا پسماندہ تنظیموں نے 1950کے صدارتی حکم نامے کو ختم کرنے کی آواز اُٹھائی؟ کبھی بے روزگاری، مدرسوں کی حالت زار، یا پسماندہ غریب، محنت کش نوجوانوں کی تعلیم کے لیے اسمبلی یا پارلیمنٹ میں اپنی آواز پہنچائی؟ کیا پسماندہ کی قیادت نے کبھی سرکاری اسکیموں میں اپنے طبقے کی نمائندگی یا عدم شمولیت پر احتجاج کیا؟ اگر نہیں، تو پھر ایسی تنظیموں کا کیا فائدہ؟
اب نہ صرف بہار کی عوام بلکہ پورے بھارت کی عوام ان تمام تنظیموں کو جو پسماندہ طبقات کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں مگر عملی میدان سے غائب ہیں ان سے سوال کر رہی ہے کہ آپ کاکامن ایجنڈا کیا ہے؟آپ کے پاس کوئی اپنے کوئی مشترکہ مطالبات ہیں؟ آپ حکومت کو انتخابات سے پہلے کیا یاددہانی کرا رہے ہیں؟آپ نوجوانوں کو کیا وژن دے رہے ہیں؟ اگر آپ یہ سب نہیں کر پا رہے توآپ کو قوم کی قیادت کا کوئی حق نہیں۔
پسماندہ طبقات کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ مزید کتنا خاموش رہیں گے۔ انہیں اپنی الگ الگ انجمنوں، تنظیموں اور ذاتوں سے اوپر اٹھ کر ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنانا ہوگا۔ ایسی قیادت سامنے لانی ہوگی جو پارٹیوں کے دروازے پر دستک دے، نہ کہ ان کے قدموں میں بیٹھے۔ ورنہ یہ ووٹ بینک ہمیشہ دوسروں کے ہاتھوں میں رہے گا، اور محرومی کی یہ زنجیر کبھی نہیں ٹوٹے گی۔