کلبورگی16اپریل: کرناٹک کے وزیراعلیٰ سدارامیا نے بدھ کے روز کلبورگی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ریاست میں جاری ذات پر مبنی مردم شماری اور روزگار میلے پر حکومت کا مؤقف واضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس سمت میں کئی اقدامات کیے جا چکے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا، “ہم نے بنگلورو میں پہلے ہی ایک روزگار میلہ منعقد کیا ہے اور اب کلبورگی، میسور اور ہبلی-دھارواڑ میں بھی روزگار میلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ ہمارا مقصد بے روزگاری کا خاتمہ ہے۔ ہم نوجوانوں کو گریجویشن کے بعد دو سال تک تین ہزار روپے ماہانہ دے رہے ہیں۔ ‘یوا ندھی اسکیم کے تحت ہم نوجوانوں کو نہ صرف مالی امداد دے رہے ہیں بلکہ روزگار کے مواقع بھی فراہم کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا ہماری پارٹی کی پختہ عہدبندی ہے۔” جب ذات پر مبنی مردم شماری کے بارے میں پوچھا گیا تو سدارامیا نے کہا، ہم نے 17 اپریل کو ایک اہم میٹنگ بلائی ہے جس میں تمام کابینی وزراء شرکت کریں گے۔ اس میٹنگ میں ذات پر مبنی مردم شماری پر تفصیلی بات چیت کی جائے گی۔ لیکن میں واضح کر دوں کہ یہ مردم شماری نہیں بلکہ ایک سماجی و اقتصادی سروے ہے۔ ہم اس مسئلے پر بحث کریں گے اور پھر کوئی فیصلہ لیا جائے گا۔” سدارامیا نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ حکومت کا مقصد کسی خاص طبقے کے ساتھ ناانصافی کرنا نہیں ہے۔ لنگایت اور ووّالِگا طبقے کے بڑھتے ہوئے احتجاج پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “انہیں اپنی رائے رکھنے کا حق ہے، اور وہ اپنی میٹنگ کر سکتے ہیں۔
ہمارے پاس کابینہ میں ووّالِگا برادری کے پانچ وزراء ہیں جو اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ لیکن ہم کسی کے ساتھ بھی ناانصافی نہیں کریں گے۔” تاہم، ریاست میں جاری اس سروے کے سبب سیاسی ہلچل بڑھتی جا رہی ہے۔ ووّالِگا برادری کی نمائندہ تنظیم ‘ووّالِگارا سنگھا نے 15 اپریل کو ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے، جس میں ریاست گیر احتجاج کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔ سنگھ نے وارننگ دی ہے کہ اگر حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کو لاگو کیا، تو وہ حکومت گرانے کی مہم بھی چلا سکتے ہیں۔

حکومتی اتحاد میں بھی اس سروے پر اختلافات سامنے آ رہے ہیں۔ ایسے میں سدارامیا کی قیادت کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ آنے والے دنوں میں حکومت کا رخ اس میٹنگ کے فیصلے پر منحصر ہوگا، جس میں مردم شماری یا سماجی و اقتصادی سروے کے حتمی خاکے کو طے کیا جانا ہے۔