ڈاکٹر رونق جمال کی پانچ کتابوں کا اجراء ایک ساتھ

0
17

(پریس ریلیز) چھتیس گڑھ کی سر زمینِ پر پہلی بار کسی ادیب کی پانچ کتابوں اور گوشہ کی شاندار رسم‌ اجراء کا عالی شان جلسہ وہ جشن سالگرہ منائی گی ۔ درگ چھتیس گڑھ کے معروف ادیب ڈاکٹر رونق جمال کی سترویں سالگرہ کے موقع پر آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی دھلی کے عہدیداران جنرل سکرٹری محمّد سراج عظیم اور خزانچی جناب عبدل مننان نے درگ پہنچ کر صنعتکار کملا موٹرس گروپ کے چیر مین عالی جناب کملیش برمیچا کے تعاؤن سے عالی شان جلسے کا انعقاد کیا۔ چونکہ پچیس مئ ڈاکٹر رونق جمال صاحب کا یوم پیدائش بھی ہے اسلئے پانچ کتابوں کے اجراء کے لئے اسی تاریخ کا انتخاب کیا گیا ۔ جلسے کی صدارت چھتیس گڑھ اردو اکادمی کے چیرمین عالی جناب ادریس گاندھی صاحب نے فرمائ ۔ شاندار جلسے کی نظامت ناگپور سے تشریف لائےمعروف شاعر جناب مشتاق احسن بیباک نے نہایت خوش اسلوبی سے نبھائ ۔ ایک سو ایک افسانچوں کے مجموعے لکشمن کی آنکھیں کا اجراء ناگپور کے معروف ناول نگار جناب وکیل نجیب نے کیا اور رونق جمال کی اکاون سالہ ادبی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈال کر چھتیس گڑھ کے کونے کونے سے آئےسیکڑوں مہمانوں کو حیران کر دیا ۔ چالیس افسانچوں کے مجموعے چالیس آدمی کا اجراء حیدرآباد سے تشریف لائےافسانا نما کے مدیر جناب محمود شاہد کے دست مبارک سے عمل میں آیا ۔ شاہد نے چالیس آدمی میں چالیس قسم کے آدمیوں کو پیش کرنے پر حیرانی کا اظہار بھی کیا اور مبارکباد بھی پیش کی ۔ آل انڈیا ادب اطفال سوسائٹی دھلی کے جنرل سیکریٹری جناب سراج عظیم نے عید سے متعلق پینتیس کہانیوں کے مجموعے عید کے دن کے بادشاہ کا اجراء کرنے کے بعد کہا کے عید کے دن کے بادشاہ کا مطالعہ کرنے کے بعد میں حیران رہ گیا کے کوئی قلمکار کار عید پر اتنی ساری دلچسپ سبق آموز اور سماج کی اصلاح کے لئے عید جیسے موضوع پر اتنی کہانیاں کیسے لکھ سکتا یہ کمالِ رونق جمال ہی کرسکتے ہیں ۔ میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھ رہا ہوں کے ایسی منفرد کتاب کا اجراء میرے ہاتھوں کروایا گیا ہے ۔ اطفال ادب پر دس طویل کہانیوں کہانیوں پر مشتمل کتاب لال کتاب کا اجراء ناگپور سے تشریف لائے خواجہ غلام السیدین ربانی سابق ڈائیریکٹر آثار قدیمہ نے کیا لال کتاب کی کہانیوں پر تبصرہ کرتے ہوئےربانی نے کہا کہ لال کتاب کی تمام کہانیاں دلچسپ اور سبق آموز ہے ۔ خاص کر کہانی لال کتاب پڑھ کر میں آخرت کےخوف سے کانپ گیا ۔ میرا دعویٰ ہے رونق جمال کہانیاں لکھتے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ان سے پیارے نبی کی امت کی اصلاح کے لئے لکھواتا ہے ۔ ان شاءاللہ اطفالی قارئین لال کتاب کو پڑھ کر محظوظ بھی ہو گے اور سبق بھی حاصل کریں گے ۔ پانچویں کتاب مینڈک کی وفاداری کا اجراء افسانہ نما کے مدیر اعلی جناب ڈاکٹر شہاب افسر جو اورنگ آباد سے تشریف لائےتھے کے دست مبارک سے کروایا گیا ۔ مینڈک کی وفاداری کی کہانیوں کے سلسلے میں ڈاکٹر شہاب نے کہاکہ کتاب کی تمام کہانیاں دلچسپ اور قابل تعریف ہے پرائمری اسکول کے نصاب میں شامل کرنے کے لائق ہے کتابیں مرتب کرنے والے حضرات نے ان کہانیوں کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ سہ ماہی اسباق کے مبسوط گوشے کا اجراء چھتیس گڑھ اردو اکادمی کے چیرمین جناب ادریس گاندھی نے کیا۔ سب سے پہلے ادریس گاندھی نے مدیر نذیر فتح پوری کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکے ہمارے چھتیس گڑھ کے مایہ ناز قلمکار کا گوشۂ شائع کر کے نذیر نے ڈاکٹر رونق جمال کا حق ادا کردیا ہے ۔ آخر میں پروگرام کے مطابق افسانا نما کے چوتھے شمارے کا اجراء جلسہ ڈاکٹر رونق جمال کے دست مبارک سے ہوا ۔ رونق جمال افسانہ نما کے عزاداری مدیر بھی ہیں ۔ اجراء کے بعد رونق نے کہا کے افسانہ نما افسانچہ نگاروں کی اہم ضروت کو پوری کررہا ہے افسانہ نما افسانچے کا بر صغیر کا واحد رسالہ جو پابندی سے شائع ہو رہا اسے زندہ رکھنے کے لیے قلمکاروں نے تخلیقات کے ساتھ زر سالانہ کے علاوہ ایک ایک خریدار بنانے کی کوششیں کرنا چاہیے ۔ جلسے کی شان بڑھانے جلگاؤں سے تشریف لائے قیوم اثر نے رونق جمال کی ایجاد کردہ صنف بچکانہ پر اظہا خیال کر بچکانچوں کے اولین مجموعے اباجان پر بہترین تبصرہ پیش کر خوب داد حاصل کی ۔ قیوم اثر کے تبصرے کے بعد کیک کاٹ کر رونق جمال کی سترویں سالگرہ کا جشن منایا گیا کیک کاٹنے کے بعد رونق جمال کو پھولوں کے ہار شالیں اور تحائف پیش کر عقیدہ کا اظہار کیا گیا ہال میں موجود سیکڑوں مہمانوں میں سے کئ بزرگ حضرات نے پرانی فلموں کے مشہور نغموں کو خوبصورتی سے پیش کر سماں باندھ دیا تھا اور لوگوں کو تھرکنے پر مجبور کردیا تھا ۔ ناگپور سے تشریف لائےجناب ریاض کامل کے اظہار تشکر کے بعد جلسے کےاختتام کے اعلان کے بعد پروقار عشائیہ پیش کیا گیا ۔ عشائیہ کادور تقریباً گیارہ بجے ختم ہوا مہمانوں میں یہ چرچا عام تھی کہ چھتیس گڑھ کی تاریخ میں ایسا جلسہ اور اجراء کی تقریب پہلے کبھی منعقد نہیں ہوئ ہے ۔
غور طلب ہے کہ بھوپال سے مشہور افسانچہ نگار و شاعر ڈاکٹر اعظم کو بطور مہمان مدعو کیا گیا تھا مگر اُن کی اہلیہ کی علالت کے سبب وہ شامل ہونے سے قاصر رہے۔