ممبئی 3اپریل:ملک میں روز بہ روز لسانی تنازعہ میں شدت آتی جا رہی ہے۔ اب مہاراشٹر، خصوصاً ممبئی میں لسانی تنازعہ نے کافی شدت اختیار کر لی ہے۔ دراصل 30 مارچ کو مہاراشٹر نو نرمان سینا (منسے) کے صدر راج ٹھاکرے نے گڑی پڈوا کے روز شیواجی پارک میں اپنے کارکنوں سے کہا تھا کہ وہ بینکوں میں جا کر دیکھیں کہ بینکوں کے کام کاج مراٹھی زبان میں ہو رہے ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد ممبئی سمیت پورے مہاراشٹر میں منسے کارکنان کے پرتشدد مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ منسے کارکنان پہلے بینک منیجر کو پھول دیتے ہیں اور پھر وارننگ دیتے ہیں کہ اگر بینک کا کام مراٹھی زبان میں نہیں کیا گیا تو اگلی بار سے پھول کی جگہ پتھر ملیں گے۔ منسے کارکنان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مہاراشٹر کے تمام بینکوں کو مراٹھی زبان میں بھی خدمات دینی چاہیے۔ ان لوگوں نے الزام عائد کیا کہ بہت سے بینک اب بھی مراٹھی زبان کو ترجیح نہیں دے رہے ہیں، جس کی وجہ سے عام مراٹھی بولنے والے صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ منسے کارکنان کا لسانی تشدد صرف بینک تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کے شکار عام لوگ بھی ہو رہے ہیں۔ ورسوا کے ایک مارٹ میں مراٹھی نہ بولنے کی وجہ سے منسے کارکنان نے ایک ملازم کی جم کر پٹائی کر دی اور اس سے مراٹھی زبان میں معافی بھی منگوائی۔ اسی طرح اندھیری کے پوئی علاقے میں ایل این ٹی کمپنی کے ایک سیکورٹی گارڈ کو بھی مراٹھی نہ بولنے کی وجہ سے منسے کارکنان نے زدوکوب کیا اور ان سے بھی مراٹھی زبان میں معافی مانگنے کو کہا۔ اس معاملے میں ریاست کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے کڑا رخ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ مراٹھی زبان میں کام کاج کے لیے لوگوں کو ترغیب دینا غلط نہیں ہے۔ لیکن اگر قانون ہاتھ میں لیا تو پولیس اپنا کام کرے گی۔ جب کہ ایکناتھ شندے کی پارٹی کے لیڈر سنجے نروپم نے منسے کے اس عمل پر سخت تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’منسے والے مراٹھی زبان کے نام پر جو مضحکہ خیز تحریک چلا رہے ہیں، میں نے ہمیشہ سے اس کی مخالفت کی ہے۔ مہاراشٹر کی مقامی زبان یقینی طور پر مراٹھی ہے۔ سب کو بولنی چاہیے، لیکن کسی غریب کو نہیں آتا ہے تو اس زدوکوب کرنا صحیح نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ’’زیادہ فکر ہے تو منسے والے مراٹھی سیکھنے کے لیے الگ سنٹر کھولیں تاکہ لوگ جا کر سیکھ سکیں۔ منسے کی مارنے پیٹنے والی حرکت غلط ہے ویسے بھی یہ ختم ہو چکے ہیں۔‘‘