کرناٹک میں بی جے پی پر کانگریس کی غیر متوقع فتح نے اچانک ملک کی سیاسی درجہ بندی کو ’’انتخابی خود مختاری‘‘ سے’’انتخابی جمہوریت‘‘میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایسا ان لوگوں کی نظر میں بھی ہوا جو ابتدا میں’’انتخابی جمہوریت‘‘ کے انہدام کے ذمہ دار تھے۔ ایسے میں 2014 سے معدوم دانشورانہ انتخابی نظام کرناٹک انتخابات میں ابھر کر سامنے آیا ہے۔یہ دانشورارانہ نظام 2019 میں مزید کمزور ہو گیا تھا۔کرناٹک میں بی جے پی پر کانگریس کی جیت کے بعد سے ایک بار پھراس نظام نے 2024 میں نریندر مودی کی شکست کے لیے ایک نکاتی ایجنڈے کا تفصیلی خاکہ تیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ کرناٹک کی جیت نے بلاشبہ حکومت کی تبدیلی کے متلاشیوں کو جوش و جذبے کی ایک بوسٹر خوراک دی ہے۔ پچھلے چار مہینوں میں بی جے پی دو ریاستوں میں اقتدار کھو چکی ہے۔ جب کہ کانگریس نے پنجاب میں عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے ہاتھوں اپنی شکست کی بھرپائی کر لی ہے۔ اس کے نتیجے میں، جب اس سال کے آخر میں چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں انتخابات ہوں گے تو بی جے پی اور مرکزی اپوزیشن دونوں کا وقار داؤ پر لگا ہوا ہوگا ۔ایسے میں بی جے پی کی اپنے جنوبی گڑھ کو برقرار رکھنے میں ناکامی یقینی طور پر پارٹی کے اندر سے ایک مکمل تجزیہ کی ضرورت ہے۔ جبکہ اس کے ناقدین اس فیصلے کو سخت گیر ہندو قوم پرستی کے شدید رد سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ امکان ہے کہ بی جے پی بہت مختلف نتیجہ اخذ کرے گی۔ پارٹی کواپنے روایتی ووٹروں کو دوبارہ متاثر کرنا ہو گا، جو اپنی حکومت کی خراب کارکردگی سے مایوس ہو چکے ہیں۔ حالانکہ اپنے 36فیصد ووٹ شیئر کو برقرار رکھنے میں کامیابی پارٹی کے لیے کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں ہے۔ یہ کارنامہ اپنی مہم کو مکمل طور پر ایک ہائی ایموشنل پچ پر رکھنے کی وجہ سے دیکھنے کو ملا ہے ۔
بعض مبصرین کا ماننا ہے کہ انتخابی مہم کے آخری دنوں میں بی جے پی کی مہمات کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ تاہم، اتر پردیش اور گجرات جیسی ریاستوں میں، اس سے پہلے سوشل انجینئرنگ اور گورننس کے مسائل پر توجہ دی گئی تھی۔ یہ نقطہ نظر کرناٹک میں ناکام رہا کیونکہ نام نہاد بدعنوانی اور کسی مضبوط مقامی چہرے کی کمی کی بات کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس رائے دہندگان کے مزاج کے مطابق کانگریس کے پاس کئی مقامی اور معروف چہرے پارٹی کی قیادت کر رہے تھے۔ پارٹی نے اپنی غیر معمولی انداز میں راگ الاپنا شروع کر دیا۔ اگر یہی حکومت آگے رہے گی تو سرکاری خزانہ لٹ جائے گا۔ اس بات پر سبھی متفق ہیں کہ ہندو یکجہتی صرف’’ جارحانہ ہندوتو‘‘ پر مبنی نہیں ہے۔ اس کو گورننس اور فلاح و بہبود پر مؤثر زور دینے کے ساتھ پورا کیا جانا چاہئے۔ کرناٹک انتخابات کے دوران بی جے پی میںاس بات کی کمی تھی، یہی وجہ ہے کہ نعروں کے اوور میں ہندو ڈھول کی پٹائی نے اقلیتوں کو کانگریس کے پاس پہنچا دیا۔ اس کے علاوہ پارٹی نے’’ ہندو اتحاد ‘‘کا اعتماد بھی کھو دیا ۔حالانکہ بعض ماہرین سیاست کا خیال ہے کہ مودی حکومت کو 2024 میں فائدہ اس کی کارکردگی کی بنیاد پرمل سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اپوزیشن ابھی بھی اتنا مضبوط نہیں دکھائی دے رہا ہے،جو قومی سطح پر بی جے پی کے سامنے ایک مضبوط چیلنج بن کر کھڑی ہو سکے۔کانگریس کے پالیسی سازوں کو اِس مروجہ عام احساس کو توڑنا ہوگا کہ مودی کی قیادت میں ہندوستان محفوظ اور بہتر ہے۔ مخمصوں سے مغلوب کانگریس کے لیے کرناٹک کی جیت اندرونی طاقت کے تانے بانے کو نئی شکل دے سکتی ہے۔بی جے پی کے پاس یوگی آدتیہ ناتھ، ہمنتا بسوا سرما، شیوراج سنگھ چوہان، وسندھرا راجے، بی ایس یورپا اور دیویندر فڑنویس جیسے علاقائی لیڈر موجود ہیں۔ تاہم، اس کے بہت سے دوسرے مقامی چہروں میں اتھارٹی اور بڑے پیمانے پر اپیل کی کمی ہے۔ بہت سی ریاستوں میں، تنظیم کے درمیان لڑائی اضافی پیچیدگیاں پیدا کرنے پر آمادہ ہیں۔اسی وجہ سے بی جے پی اکثر مرکز کی طاقت کا پورا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہتی ہے۔ بی جے پی کے سامنے چیلنج ریاستی رہنماؤں کو بااختیار بنانا اور مقامی اور قومی کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ سخت مسابقتی سیاست کے اس دور میں پارٹی کو اسے قبول کرنے کی ضرورت ہے۔بی جے پی کو یہ سمجھنا ہوگا کہ’’ کٹر وادی ہندتو‘‘ کی فصل زیادہ دنوں تک نہیں کاٹی جا سکتی ہے۔دانشورانہ انتخابی نظام میں پھونک پھونک کر قدم بڑھانا ہوگا اور اپنے عمل سے یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ جمہوری اقدار کا تحفظ بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح اقتدار کے لئے کوشش کرنا۔