بھوپال:12جنوری:رحمت کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ رمضان آنے سے پہلے آپ رمضان کے استقبال کیلئے لوگوں کے ذہن تیار کرتے تھے تاکہ رمضان سے خاطر خواہ فائدہ اْٹھا سکیں۔ احادیث میں ایسے خطبوں کا تذکرہ آتا ہے، جو خاص اس مقصد کیلئے آپ نے رمضان کی آمد سے پہلے دیئے ہیں۔ خاص طور پر وہ خطبہ تو بہت ہی طویل اور مشہور ہے جو شعبان کی آخری تاریخ کو آپ نے دیا ہے اور جس کے راوی حضرت سلمان فارسی ؓ ہیں۔ اس خطبے میں آپ ﷺ نے یہ خوش خبری دیتے ہوئے کہ تم لوگوں پر جلد ہی ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، اس مہینے کی عظمت اور فضیلت کے مختلف پہلو پیش فرمائے۔ اس میں روزے کے فیوض و برکات کا ذکر فرمایا اور اس طرح ذہنوں کو تیار کیا کہ اس سنہری موقع سے پورا پورا فائدہ اْٹھانے کیلئے انسان پورے ذوق و شوق اور یکسوئی کے ساتھ کمربستہ ہوجائے۔ مذکورہ خیالات کا اظہار قاضی شہر حضرت مولانا سید مشتاق علی ندوی نے موتی مسجد بھوپال میں نمازیوں سے خطاب فرماتے ہوئے کیا۔
قاضی صاحب نے فرمایا کہ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ رمضان کی پہلی شب آنے سے پہلے انسان اپنا معاملہ خدا سے بھی صاف کرے اور خدا کے بندوں سے بھی۔ وہ سنجیدگی سے سوچے کہ وہ خدا کے حقوق ادا کرنے میں کیا کیا کوتاہیاں کرتا رہا ہے، کن کن نافرمانیوں میں مبتلا رہا ہے اور اس کی زندگی کے بہترین اوقات کن خرافات میں گزرتے رہے ہیں۔ سچے دل سے توبہ کرے اور خدا سے پختہ عہد کرے کہ پروردگار جو کچھ ہوچکا، ہوچکا، اب یہ تیرا بندہ تیرا وفادار رہے گا اور نافرمانیوں سے دامن پاک رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اگر نمازیں قضا ہوئی ہیں تو رمضان کے ایام میں ان کو ادا کرنے کی فکر کرے۔ اگر زکوٰۃ ادا کرنے میں کوتاہی ہوئی ہے تو اسی رمضان میں حساب لگا کر ادا کرنے کا ارادہ کرلے۔ قدرے تکلیف اْٹھا کر جتنی ادا کرسکتا ہو ادا کرے، جو رہ جائے خدا سے عہد کرے کہ رمضان کے بعد اہتمام کے ساتھ ادا کرے گا۔ بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوئی ہو، کسی کو ناحق ستایا ہو یا کسی کا دل دکھایا ہو یا کسی کا نقصان کیا ہو تو یہ ان سب سے معافی طلب کرے اور جب تک یہ لوگ معاف نہ کردیں، اطمینان ک سانس نہ لے۔ ہرقسم کا بدلہ دینے کے لئے تیار رہے اور بہرصورت لوگوں سے معاف کرا کر دم لے، اس لئے کہ بندوں کے حقوق جب تک بندے خود معاف نہ کردیں، اللہ معاف نہیں کرتا۔
قاضی صاحب نے ایک عام کوتاہی کی طرف حاضرین مسجد کی توجہ مبذول کراتے ہوئے فرمایا کہ اصلاحِ حال کے معاملے میں عام طور پر ایک اور کوتاہی بھی عام ہے، وہ یہ کہ جب بھی انسان پر نیکی کے جذبات چھانے اور نیکیاں کرنے کا داعیہ اْبھرتا ہے تو ادھر نگاہ نہیں جاتی کہ وہ کن کن چھوٹے بڑے گناہوں میں مبتلا ہے، بلکہ کچھ نوافل و اذکار اور صدقات و خیرات کی طرف ذہن متوجہ ہوجاتا ہے اور آدمی یہ سب کر کے اطمینان محسوس کرتا ہے کہ اس نے دین دارانہ زندگی اپنا لی ہے اور فرماں بردار بندوں میں شامل ہوگیا ہے۔ حالانکہ اذکار و نوافل اور صدقات و خیرات کا اہتمام کرنے سے پہلے سوچنے اور کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ دیکھے کہ کن کن گناہوں میں وہ مبتلا ہے۔ کبیرہ گناہوں سے مخلصانہ توبہ کرے اور خدا سے پختہ عہد کرے کہ آئندہ ان گناہوں کو جانتے بوجھتے کبھی نہیں دہرائے گا۔ صغیرہ گناہوں سے بھی توبہ کرے، اگرچہ صغیرہ گناہ اللہ تعالیٰ نیکیوں کی برکت سے معاف کردیتا ہے مگر کبیرہ گناہ وہ ہرگز معاف نہیں فرماتا۔ کبیرہ گناہ توبہ ہی کے ذریعے معاف ہوتے ہیں اور توبہ ہی بندے کا وہ عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ انتہائی خوش ہوتا ہے۔
قاضی صاحب نے فرمایا کہ وقت کی سوئیاں تیزی سے گھوم رہی ہیں۔ شب و روز، ماہ و سال میں لپٹتے چلے جارہے ہیں۔ ماہِ صیام اپنی تمام تر برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ سایہ فگن ہونے کو ہے۔ رمضان المبارک میں معمولاتِ زندگی یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں۔