نئی دہلی 28اپریل: جموں و کشمیر کے پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ کے بعد اپوزیشن پارٹیاں لگاتار حکومت سے کہہ رہی ہیں کہ وہ دہشت گردی کے خلاف سخت قدم اٹھائے، حکومت کو سبھی پارٹیوں کا تعاون حاصل ہوگا۔ پاکستان کے خلاف حکومت نے کچھ بڑے قدم اٹھائے بھی ہیں۔ اس درمیان اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت کو کھلے پلیٹ فارم پر گھیرنے کی تیاریاں بھی شروع کر دی ہیں۔ ذرائع کے حوالے سے میڈیا رپورٹس میں بتایا جا رہا ہے کہ کانگریس سبھی پارٹیوں کو متحد کر رہی ہے تاکہ حکومت کے سامنے سوالات اٹھائے جا سکیں۔ بتایا تو یہاں تک جا رہا ہے کہ سی پی آئی کے راجیہ سبھا رکن سندوش کمار نے وزیر برائے پارلیمانی امور کو خط بھی لکھ دیا ہے۔ ہندی نیوز پورٹل ’ٹی وی 9 بھارت ورش‘ پر شائع رپورٹ کے مطابق حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے ساتھ ہی پہلگام دہشت گردانہ حملے میں شامل دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے آخر حکومت کیا قدم اٹھانے جا رہی ہے؟ اس کا جواب بھی حکومت سے مانگا جائے گا۔ کانگریس نے اس کے لیے تمام اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران سے مل کر انھیں ساتھ لانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ جلد ہی کانگریس مرکزی حکومت کو پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے آفیشیل خط لکھ سکتی ہے۔ اس خط میں ان سبھی اپوزیشن پارٹیوں کا تذکرہ ہوگا جو اس مطالبہ میں کانگریس کے ساتھ آنے کو رضامند ہیں۔ کانگریس کے ذریعہ پہلگام دہشت گردانہ واقعہ کے بعد پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کیے جانے کے مطالبہ پر ہو رہے غور و خوض سے متعلق کانگریس رکن پارلیمنٹ طارق انور کا رد عمل بھی سامنے آیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میری ذاتی رائے میں خصوصی اجلاس طلب کرنا چاہیے، اور اس لیے طلب کرنا چاہیے کیونکہ اس حادثہ میں کئی بے گناہوں کی جان چلی گئی ہے۔ حادثہ کے بعد حکومت کا رویہ انتہائی مایوس کن ہے۔
دوسری طرف پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کے لیے سی پی آئی راجیہ سبھا رکن سندوش کمار نے پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو کو خط لکھا ہے۔ اس خط میں انھوں نے کہا ہے کہ ’’میں بھاری من سے آپ کو خط لکھ رہا ہوں۔ پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے سے بہت غمزدہ ہوں۔ اس حادثہ نے نہ صرف متاثرین اور ان کے کنبوں کو تکلیف پہنچائی ہے، بلکہ ملک کی روح کو جھنجھوڑ دیا ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’اس مشکل وقت میں ضروری ہے کہ ہماری پارلیمنٹ لوگوں کی آواز، یکجہتی کے ساتھ ہمارے گہرے دُکھ کو ظاہر کرنے، متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرنے اور دہشت گردی کے خلاف ملک کے مضبوط عزائم کو دہرانے کے لیے ایک ساتھ آئے۔‘‘