بھوپال:24نومبر:مدھیہ پردیش اردو اکادمی، محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام ضلع ادب گوشہ ودیشہ کے ذریعے سلسلہ کے تحت مشہور شعراء جوہر باسودوی اور للو سنگھ حیراں کو موسوم شعری و ادبی نشست کا انعقاد 24 نومبر 2024 کو دوپہر 1 بجے چترگپت دھرم شالہ آڈیٹوریم، ودیشہ میں ضلع کوآرڈینیٹر سنتوش شرما کے تعاون سے کیا گیا۔
اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے پروگرام کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ودیشہ میں منعقدہ اردو اکادمی کا پروگرام سلسلہ مشہور شاعر و دانشور جوہر باسودوی اور للو سنگھ حیراں کو موسوم ہے۔ ان کی شاعری میں اردو کی شیرینی کے ساتھ ہی سماجی شعور اور ثقافتی اقدار کا عکس ہوتا تھا۔اس کا مقصد ان کی ادبی و سماجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے ۔ ساتھ ہی اکادمی کے ذریعے ہر ضلع میں اس طرح کے پروگرام منعقد کرنے کا مقصد اردو ادب اور زبان کا فروغ، مقامی ادبا و شعرا کو اسٹیج فراہم کرنا اور ارد ادب کو دیگر زبانوں اور ثقافتوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش ہے۔
ودیشہ ضلع کے کوآرڈینیٹر سنتوش شرما نے بتایا کہ دوپہر 1 بجے سلسلہ کے تحت شعری و ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت ودیشہ کے استاد شاعر نثار مالوی نے کی اور مہمانان ذی وقار کے طور پر اقبال منظر کوروائی، راج کمار کوری بیتول اور ڈاکٹر ظفر سرونجی اسٹیج پر جلوہ افروز رہے۔ نشست میں نثار مالوی نے جوہر باسودوی اور للو سنگھ حیراں کے فن و شخصیت پر گفتگو کر انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔
نثار مالوی نے للو سنگھ حیراں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ اردو ادبی دنیا میں ایک نام شاعری کے ساتھ ساتھ اپنی درویش صفت طبیعت کے لیے بھی جانا جاتا تھا ۔ وہ نام ہے ٹھاکر للو سنگھ حیراں کا جو ایک صوفی شاعر کے ساتھ صوفیانہ مزاج کی شخصیت تھے۔1916 میں معلم کے طور پر انھوں نے اپنی خدمات انجام دیں۔ ان کی شاعری میں تصوف کا رنگ اور زندگی کی تلخیوں پر کافی اشعار نظر آتے ہیں۔روایتی شاعری میں بھی ان کا نام نمایاں تھا۔
وہی جوہر باسودوی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ عبدالحمید جوہر باسودوی کا نام مدھیہ پردیش کے شعری منظرنامے میں اہمیت کا حامل تھا۔ وہ نہ صرف بہترین شاعر تھے بلکہ اردو کے فروغ کے لیے بھی انھوں نے کافی کام کیا۔انھوں نے ایک اسکول کی بنیاد ڈالی جو آج بھی بچوں میں علم کے بیج بو رہا ہے۔ ان کے بیشتر اشعار آج بھی باسودہ کے آس پاس کے لوگوں سے سنے جاسکتے ہیں ۔
شعری نشست میں جو اشعار پسند کیے گئے وہ درج ذیل ہیں:
رخصت ہوا ہے جب بھی کوئی روٹھتے ہوئے
دیکھا ہے دل کے آئینے کو ٹوٹتے ہوئے
رام کشن اسہائے
کتاب زیست کی رنگینیوں کو کیا پڑھتا
جسے ملی نہیں فرصت غموں کے دفتر سے
اقبال منظر
کہہ دیا پیلا تو منظر پیلے پیلے ہوگئے
میں نے بارش لکھ دیا تو حرف گیلے ہوگئے
ڈاکٹر ظفر سرونجی
تم دنیا کے میلے کی حقیقت نہیں سمجھے
ہم لوگ تماشا ہیں تماشائی نہیں ہیں
راج کمار کوری
رفتہ رفتہ یہ سمجھ جاؤگے دنیا کیا ہے
دیکھتے جاؤ ابھی آپ نے دیکھا کیا ہے
عظمت دانش
جو عمر اپنی غموں میں تمام کرتے ہیں
وہی تو صرف زمانے میں نام کرتے ہیں
آصف سرونجی
کرتا ہے اپنے عیب ہنر میں شمار وہ
بستی کے سارے لوگ تماشا کہیں جسے
اسعد ہاشمی
مٹ سکی نے اڑان کی چاہت
سب کترتے رہے ہمارے پر
محمد ایاز اسلم
جاؤ دریا سے ملو جا کے سمندرسے ملو
زندگی جینا ہے تو جاکر قلندر سے ملو
دولت رام پرجاپتی
رسم الفت میں تو انکار نہیں ہوسکتا
عشق کا کوئی خریدار نہیں ہوسکتا
پرمود چوہان
کیسے کہیں پہ ٹھہروں میں تعمیر گھر کروں
قسمت میں تو لکھا ہے مسلسل سفر کروں
ادے ڈھولی
مسئلہ یہ ہے کہ اب بات بنائیں کیسے
اس کو رسماً ہی سہی دل سے بھلائیں کیسے
علیم مضطر
کون کتنا سچا ہے کون کتنا جھوٹا ہے
اپنے دل کے اندر بھی جھانکنا ضروری ہے
کرشن کانت موندڑا
سلسلہ ادبی و شعری نشست کی نظامت کے فرائض سنتوش ساگر نے انجام دیے۔ پروگرام کے آخر میں انھوں نے تمام مہمانوں، تخلیق کاروں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔