ایم پی اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام کٹنی میں سلسلہ کے تحت کرشن چند راج کو منسوب ادبی و شعری نشست منعقد

0
6

بھوپال:18اگست :(پریس ریلیز) مدھیہ پردیش اردو اکادمی، محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام ضلع ادب گوشہ کٹنی کے ذریعے ’سلسلہ‘ کے تحت مشہور ادیب، شاعر اور سماجی کارکن کرشن چند راج کو منسوب شعری و ادبی نشست کا انعقاد 18 اگست 2024 کو دوپہر 2 بجے آنندم استھل، ایس ڈی ایم آفس کے پاس، کٹنی میں ضلع کوآرڈینیٹر مقصود نیازی کے تعاون سے کیا گیا۔
اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے پروگرام کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کٹنی کے لوگ جانتے ہیں کہ کرشن چند راج کی شخصیت اور فن سادگی، سپردگی اور سماجی انصاف کے تئیں پرعزم ہے۔ اردو اکادمی ایسی شخصیات نے ایسی شخصیات کو اپنے پروگراموں میں اس لیے یاد کرتی ہے تاکہ سماج کو ان افکار اور کارناموں سے تحریک مل سکے۔ یہ پروگرام نئی نسل کو ان کی زندگی کی اقدار، نظریات اور خدمات سے متعارف کرانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس طرح اکادمی کے زیر اہتمام منعقدہ پروگراموں کا مقصد نہ صرف ان عظیم شخصیات کو یاد رکھنا ہے، بلکہ ان کے خیالات اور آدرشوں کو موجودہ سماج میں متعلقہ بنائے رکھنا بھی ہے۔
کٹنی ضلع کے کوآرڈینیٹر مقصود نیازی نے بتایا کہ دوپہر 2:00 بجے سلسلہ کے تحت شعری و ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت کٹنی کے ایس ڈی ایم پی کے مشرا نے کی اور مہمانان ذی وقار کے طور پر راشد راہی۔ جبلپور، نیلیمیا پاٹھک اور سر پنچ گرومکھ بالانی اسٹیج پر جلوہ افروز رہے۔
نشست کی شروعات میں کٹنی کے سینئر ادیب و شاعر گھنشیام بیلانی نے کرشن چند راج کے فن و شخصیت پر گفتگو کر انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔
گھنشیام بیلانی نے کہا کہ کرشن چند راج کئی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔ وہ خصوصاً ہندی، اردو، سنسکرت اور سندھی زبان کے ادیب مانے جاتے تھے۔ وہ سادگی پسند تھے اور پیدل سفر کیا کرتے تھے۔ رکشہ یا سائیکل پر نہیں بیٹھتے تھے انھیں لگتا تھا کہ رکشہ یا سائیکل پر بیٹھنا کسی انسان کی محنت کا جسمانی بن استحصال کرنا ہے اس لیے وہ ہمیشہ پیدل چلنا پسند کرتے تھے۔ وہ بیرسٹر بھی تھے۔ اندر سے ادیب اور باہر سے سماجی کارکن یہی ان کی خوبی تھی۔ ان کی وفات 23 اپریل 1989 کو ایک سڑک حادثے میں ہوئی۔
شعری نشست میں جو اشعار پسند کیے گئے وہ درج ذیل ہیں:
میں اپنی ذہن کی شاخوں سے جب الفاظ چنتا ہوں
تو کاغذ کی زباں پر دھڑکنوں کی چیخ سنتا ہوں
مجھے آواز دیتی ہے تمہارے درد کی چیخیں
اٹھا کر پھر قلم کو میں تمہارے درد بنتا ہوں
(راشد راہی، جبلپور)
عجیب دور ہے یہ روٹھنے منانے کا
کسی کے پاس آنے کا کسی سے دور جانے کا
(قاضی نسیم)
حال دکھ دے گا تو ماضی پہ نظر جائے گی
زندگی حادثہ بن بن کے گزرجائے گی
(نظام خان)
اچھے لوگ مرنے کے بعد پیدا ہوتے جہان میں
ہم نے یہ کہہ دیا ہے اپنے بیان میں
(گھنشیام بیلانی)
دامنِ صبر اب ہوچکا تار تار
یا خدا پیرہن اب نیا دے مجھے
(شبینہ فتح)
نگاہ لطف سے دیکھو تو ایک بار مجھے
زمانہ رشک سے دیکھے گا بار بار مجھے
(غلام جیلانی)
جس جگہ میں کھڑا وہ مری پہچان ہے
جسم میرا روح میری اور میری جان ہے
جس پہ میں سجدہ کروں، جس پہ نمازیں پڑھوں
ناز ہے جس پہ مجھے وہ میرا ہندوستان ہے
مقصود نیازی
کتنی ادھوری ہوں میں تم بن پیا
کیا پریت میں تمھاری جوگن بن جاؤں
(نیلیما پاٹھک)
سلسلہ ادبی و شعری نشست کی نظامت کے فرائض مقصود نیازی نے انجام دیے.پروگرام کے آخر میں انھوں نے تمام مہمانوں، تخلیق کاروں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔