بھوپال:25؍مئی:(پریس ریلیز)
25 مئی اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم دن ہے، کیونکہ اسی روز 1831 میں نواب مرزا خان عرف داغ دہلوی پیدا ہوئے۔ داغ دہلوی نے نہ صرف اردو غزل کو ایک خاص رنگ دیا بلکہ اپنے اندازِ بیان سے اردو زبان کو عوام کے دلوں میں بسا دیا۔ ان کی شاعری میں تہذیب، محبت، نرمی اور دہلی کی خالص زبان کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔
داغ دہلوی کا کلام صرف حسن و عشق کی داستان نہیں، بلکہ زبان کی نزاکت، محاورے کی برجستگی اور تہذیبی لطافت کا خوبصورت امتزاج ہے۔ ان کا کلام آج بھی اسی شدت سے پڑھا اور سنا جاتا ہے جیسے ان کے زمانے میں۔ ان کا مشہور شعر ہے:
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
داغ دہلوی کی شاعری ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ اُردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیب ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس نے مختلف قوموں، مذہبوں اور علاقوں کو جوڑنے کا کام کیا ہے اور کر رہی ہے۔ اردو نے ہمیشہ اتحاد اور ہم آہنگی کا پیغام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ”ہندی کی بہن” کہا جاتا ہے۔
اردو کی پرورش دہلی، لکھنؤ، رامپور، حیدرآباد اور بھوپال جیسے شہروں میں ضرور ہوئی، لیکن اس کا دل ہمیشہ بھارت کے ہر کونے میں دھڑکتا رہا۔ یہ صرف مسلمانوں کی زبان نہیں، بلکہ ہر اُس شخص کی زبان ہے جس نے اس سے محبت کی ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اردو زبان نے بھارت کی تحریکِ آزادی میں ایک فعال کردار ادا کیا۔ انقلابی شاعری، نعرے، گیت اور خطابات—سب کچھ اردو میں ہوا۔سر سید احمد خان،مہاویر پرساد دویدی، پنڈت برج نارائن چکبست، رگھوپتی سہائے فراق، پنڈت دیا شنکر نسیم، مولانا محمد علی جوہر،حسرت موہانی، منشی پریم چند، جوگندر پال، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی اور دیگر رہنماؤں نے اردو کے ذریعے عوام کو بیدار کیا۔ اردو ہی وہ زبان تھی جس میں ”انقلاب زندہ باد” کا نعرہ گونجا۔
آج جب اُردو کو حاشیے پر ڈالنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، ہمیں داغ دہلویؔ جیسے شاعروں کی یاد آتی ہے جنہوں نے زبان کا دلوں سے رشتہ بنایا۔ اُردو نے کبھی فرقہ نہیں دیکھا، بس ہمیشہ محبت کی بات کی ہے۔ اس لیے داغ دہلوی کا یوم پیدائش صرف ایک شاعر کو یاد کرنے کا دن نہیں، بلکہ اردو زبان سے تجدیدِ عہد کا موقع ہے۔
اگر ہم اس ملک میں امن چاہتے ہیں ،بھائی چارے کا ماحول چاہتے ہیں تو ہمیں اُردو کے لئے محنتیں کرنا ہوں گی اسلئے کہ ایک اُردو زبان ہی ہے جو ہمیشہ سے لوگوں کو آپس میں جوڑکر رکھی ہوئی ہے اور آگے بھی اُردو زبان وتہذیب ہی بھارت کو جوڑکر رکھ سکتی ہے۔آج ملک ترقی کی راہ پر پیچھے کیوں ہیں؟ اسلئے کہ آج زبان پر بھی سیاست ہو رہی ہے ،اگر ہم بڑوں- بزرگوں کو دیکھیں، ان کی تاریخ پڑھیں تو یقینا ہمیں معلوم ہوگا کہ اس دور میں اُردو کسی خاص طبقے کے ساتھ نہیں جوڑی جاتی تھی بلکہ ہر ایک اُردو بولتا تھا اور یہی ہمارے ملک بھارت کا حسن تھا لیکن افسوس کہ موجودہ حکومتیں اس پیاری زبان کے ساتھ سوتیلہ سلوک کر رہی ہیں اور کہیں نہ کہیں ہم بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔
اِس خاص موقع پر ہمیں چاہئے کہ آنے والی نسلوں کو اُردو زبان سکھانے کے لئے کوشاں ہوجائیں خود بھی اُردو پڑھیں ،اُردو لکھیں اور اُردو بولیں نیز اپنے بچوں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔ اُردو زبان وتہذیب کے فروغ کیلئے ہر وہ کام کریںجس سے اُردو پوری دنیا تک پہنچے اور اُردو کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
بھارت ہے اس کا مسکن ، بھارت ہے اس کا گلشن
بھارت کی ہے دُلاری اُردو زبان ہماری