بھوپال:17؍جنوری:(پریس ریلیز)بھارت نہ صرف مختلف تہذیب کا گہوارہ بلکہ کثیر اللسان ملک ہے۔یہ دنیا کے سب سے زیادہ مذاہب اور تہذیبو ں کے ماننے والے لوگوں کا ملک ہے۔ہزاروں سال قدیم اس ملک میں جتنی بھی قوموں کے لوگ آئے اور انہو ں نے بود و باش اختیار کی تو انہوں نے اس ملک میں اپنی تہذیب کے روشن نقوش مرتب کئے ہیں۔
ممتاز محقق ڈاکٹر مہتاب عالم نے اپنی کتاب وسط ہند میں اردو ادب اور ممتاز مورخ سینی کمار چٹرجی کے مطابق بھارت میں جو قومیں باہر سے آئیں ہیں ان میں اولڈ نیگریٹو، آسٹرک، دراوڈ، آرئین، عرب، ڈچ،پرتگال،فرینچ،مسلم اور انگریزوں کا ذکر کیاہے تہذیبوں کے تصادم میں ایک قوم نے دوسرے کے کہیں پر اثرات قبول کئے تو کہیں پر ایک قوم نے دوسرے کے نقوش کو مٹاکر اپنے نقش قائم کرنے کی کوشش کی۔شہروں اور گاؤں کے نام کو مٹاکر نئے نام سے پہچان قائم کرنے کا سلسلہ صدیوں قبل جو شروع ہوا تھا وہ آج بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ جس نے اب تعصبانہ رویہ اختیار کر لیا ہے اور اب ایک مخصوص ذات اور قوم کو نیچا دکھانے کی غرض سے کیا جارہا ہے جو آئین کے خلاف ہے۔ آزادی کے بعد ملک کی سیاسی پارٹیوں نے اپنے سیاسی مفاد اور ووٹوں کی سیاست کے لئے دوسری قوموں کے نقوش کو مٹاکر ایک خاص رنگ میں رنگنے کا کام کیا ہے اب اس رجحان میں شدت آتی جا رہی ہے۔کانگریس جو شہروں اور قریوں کے نام بدلنے پر خاموش رہتی تھی اب وہ لب کشائی کے ساتھ حکومت کو اپنے نظریہ میں تبدیلی لانے کا مشورہ بھی دینے لگی ہے۔
آئین کے نفاذ کے پچھہتر سال بعد بھی ملک میں بہت سے مقامات،گاؤں اور اسٹیشنوں کے نام ایسے ہیں جس سے مخصوص ذات یا نسلی تفریق کا معاملہ ہم سب کے سامنے ہے۔ کانگریس نے وزیر اعلی ڈاکٹر موہن یادو کو خط لکھ کر ایسے ناموں کو بدلنے کا مطالبہ کیا ہے جو مسلم نام والے نہیں ہیں بلکہ ان سے کسی نہ کسی ذات کا پتہ چلتاہے یا نسلی تفریق کی نشاندہی کرتا ہے۔موجودہ حکومت اُردو اور مسلم نام والے مقامات، ایسے نام جو اسلام ،مسلم یا گنگا جمنی تہذیب، بھارتیہ ثقافت اور روایت جو ہندو مسلم اتحاد اور اتفاق کی علامت اور شناخت اور نشاندہی کرتے ہیں اور ہندو مسلم ایکتا کو مضبوط کرتے ہیں اسی نام والے مقامات کو بدلنے کے لئے فکرمند رہتی ہے۔ ایسے تمام نام جو کسی مسلم حکمراں کے نام پر ہیں یا مسلم یا خاص مذاہب کی نشاندہی کرتے ہیں حملہ آور بتا کر نام بدلنے کی فکر میں رہتی ہے جبکہ بھارت میں مول نیواسی اور دراوڑ کو چھوڑ کر سبھی باہری ہیں اور باہر سے آئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سرکار ذات پات اور نسلی تفریق پر مبنی گائوںماجرہ، محلہ ٹولہ کے نام پر اعتراض کیوں نہیں کرتی؟مدھیہ پردیش کے ہی کئی خطوں میں لوہارپورہ، ڈھمرووالا، ڈومن پورہ، چمٹولی، چمرولا اور اس طرح سے دیگر صوبوں میں بھی ایسے نام ہیں جو نہ صرف آئینی طور پر غلط ہیں بلکہ سماجی طور پر بھی قابل اعتراض ہیں۔ بھارت کے کئی صوبوں اور شہروں میں اس طرح کے نام کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ ایسے نام ہر ضلع اور شہر میں مل جائیں گے جو ذات اور نسلی امتیازات کی نشاندہی کرتے ہیں۔انہیں بدل کر ملک کے ممتاز مجاہدین آزادی،صوفی، سنتوں، سائنسدانوں کے نا م پر رکھے جا سکتے ہیں۔
آزادی کے بعد ملک کی سیاسی جماعتوں نے بہت سے شہروں اور مقامات کے نام تبدیل کیے ہیں جس کا سیاسی جماعتوں نے سیاسی فائدہ بھی اُٹھایا ہے لیکن ذات اور نسل پر مبنی گائوں اور مقامات کے نام کو تبدیل کرنے کی جانب کسی بھی سیاسی جماعت نے غور نہیں کیا اور آج جو نام تبدیل کرنے کا سلسلہ چلا ہے وہ ایک قوم ، ملک کو ٹھیس پہنچانے کی غرض سے کیا جارہا ہے اور یہ سب تعصبانہ رویہ مخصوص ذات و مذہب کو نیچا دکھانے کے لئے اختیار کیا جارہا ہے۔جو ملک کے مستقبل کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔گذشتہ ہفتہ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی ڈاکٹر موہن یادو کے ذریعہ اُجین کے تین گاؤں کے نام بدلنے کا اعلان کیا گیا اور اس کے بعد شاجاپور کے ۱۱؍ گائوں کے ناموں کو ایک ساتھ بدل دیا گیا ۔ وزیر اعلیٰ نے نام تبدیل کرنے کے لئے عجیب و غریب منطق بیان کی ہے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ مولانا نام کھٹکتا ہے اور نام لکھوں تو پین اٹکتا ہے‘‘ یعنی وزیر اعلیٰ اس لقب کی توہین کرنے کے ساتھ ساتھ تحریک جنگ آزادی میں شامل تمام مجاہدین آزادی (مولانا) جن کی تعداد ہزار دو ہزار میں نہیں بلکہ ہزاروں لاکھوں میں ہے ان کی بھی توہین کی ہے جنہوںنے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ، بھارت کے ذرہ ذرہ کو اپنے لہو سے سینچ کر پیار و محبت بھرا بھارت دیا لیکن وزیر اعلیٰ اس طرح کا بیان دے کر اپنی ذہنیت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اس طرح کا بیان سنودھان (آئین ) کی دھجیاں اُرا رہا ہے۔ ایسا تبصرہ وزیر اعلیٰ کے عہدہ کے وقار کے مطابق نہیں ہے۔