نئی دہلی 2اپریل: پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے 2 اپریل کو لوک سبھا میں ’وقف ترمیمی بل 2024‘ پیش کر دیا۔ اس دوران رجیجو نے بل سے متعلق تفصیلی جانکاری دی اور اس کے نئے نام کا بھی اعلان کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم نے جو وقف (ترمیمی) بل پیش کیا ہے، اس میں جے پی سی کی کئی سفارشات شامل ہیں، جنھیں ہم نے قبول کر لیا ہے اور اس بل میں شامل کر لیا ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ جے پی سی کی سفارشات اس بل میں شامل نہیں کی گئی ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اس بل کا ایک بہت ہی اہم پہلو نیا نظام ہے۔ وقف بل کا نام بدل کر یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ امپاورمنٹ، ایفی شینسی اینڈ ڈیولپمنٹ (یو ایم ای ای ڈی) بل کر دیا گیا ہے۔ اس سے ’امید‘ کا جذبہ پیدا ہوگا۔‘‘ اس سے قبل کرن رجیجو نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’2013 میں 2014 کے لوک سبھا انتخاب سے عین قبل کچھ ایسے قدم اٹھائے گئے تھے، جو آپ کے من میں سوال کھڑے کریں گے۔ 2013 میں سکھوں، ہندوؤں، پارسیوں اور دیگر لوگ وقف بنا سکتے تھے۔ یہ بدلاؤ کانگریس نے 2013 میں کیا تھا۔ کانگریس نے بورڈ کو خاص بنایا، شیعہ بورڈ میں صرف شیعہ ہی شامل ہوں گے۔ ایک دفعہ جوڑا گیا کہ وقف کا اثر ہر دوسرے قانون پر حاوی ہوگا۔ یہ دفعہ کس طرح قابل قبول ہو سکتا ہے؟‘‘ رجیجو نے کچھ باتوں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’وقف بورڈ کے التزامات کا کسی مسجد، مندر یا مذہبی مقام کے مینجمنٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ صرف ملکیت مینجمنٹ کا معاملہ ہے۔ اگر کوئی اس بنیادی فرق کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، یا قصداً نہیں سمجھنا چاہتا ہے، تو میرے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے۔‘‘ وقف ترمیمی بل سے متعلق رجیجو کا کہنا ہے کہ ’’اس بل میں کچھ خامیاں تھیں، اس لیے اس میں ترمیم لازمی تھی۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ کوئی بھی ہندوستانی وقف بنا سکتا ہے، لیکن 1995 میں ایسا نہیں تھا۔ 2013 میں اس میں تبدیلی کی گئی اور اب ہم نے 1995 کے التزامات کو بحال کر دیا ہے، جس سے یہ یقینی ہو گیا ہے کہ صرف وہی شخص وقف بنا سکتا ہے جس نے کم از کم 5 سالوں تک اسلام پر عمل کیا ہو۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’اب وقف بورڈ میں شیعہ، سنی، بوہرا، پسماندہ مسلمان، خواتین اور غیر مسلم ماہرین بھی شامل ہوں گے۔ میں اسے تفصیل سے بتانا چاہتا ہوں، اور میں اپنی خود کی مثال دیتا ہوں۔ مان لیجیے کہ میں مسلمان نہیں ہوں، لیکن میں اقلیتی معاملوں کا وزیر ہوں۔ پھر میں سنٹرل وقف کونسل کا چیئرمین بن جاتا ہوں۔ میرے عہدہ کے باوجود کونسل میں زیادہ سے زیادہ 4 غیر مسلم اراکین ہو سکتے ہیں، اور ان میں سے 2 خواتین لازمی ہیں۔‘