مرکزی انتخابات کے نتائج میں مسلمانوں کا جو کردار رہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔یقینا مسلمانوں نے ملک کی حفاظت کے تئیں پوری ذمہ داری کے ساتھ کام کیا ہے اور اپنے سیاسی شعور کا ثبوت دیا ہے۔لیکن نتائج آجانے کے بعد اور حکومت کی تشکیل ہو جانے کا بعد مسلمانوں کا جورد عمل دیکھنے کو مل رہا ہے اس سے یہ بات تو صاف ہوگئی کہ اب بھی ہماری قوم کو سیاسی طور پر اور باشعور ہونے کی ضرورت ہے۔بلکہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
کیا صرف بھاجپا کو ہرانا ہمارا مقصد تھا؟؟ حالانکہ اس میں بھی ہم مکمل کامیاب نہیں ہوئے اور بھاجپا کی نہ سہی مگر این ڈی اے کی حکومت تو بن ہی گئی اور تیسری بار مودی وزیر اعظم بن گئے۔ اس سب کے باوجود ہماری قوم اس خوش فہمی میں ہے کہ سال بھر میں اپوزیشن یہ حکومت گرا دیگی اور سال بھر کے بعد کانگریس کی حکومت بنے گی۔ یعنی ہم اب بھی سیاسی طور پر نتیش اور نائیڈو پہ ہی تکیہ کرنا چاہتے ہیں۔کیا ہمارے پاس اپنا کوئی ویژن، کوئی تدبیر وغیرہ ہے؟ جس سے ہماری لیڈرشپ بنے اور ایوان میں ہماری آواز بلند ہو، ظلم و زیادتی کے خلاف ہماری آواز اُٹھانے والا کوئی ہو۔یقینا ہمارے پاس ایسا کوئی ایجنڈا نہیں ہے جو ہمیں ان چار صوبوں کے انتخابات سے قبل بنانے کی ضرورت ہے۔ کچھ ہی مہینے بعد بہار، جھارکھنڈ، مہاراشٹر، ہریانہ اور ان کے علاوہ کئی صوبوں میں اور اس کے بعد اگلے سال انتخابات ہونے والے ہیں۔ایسے میں مسلم سماج اور خاص کرکے دلت مسلم، او بی سی مسلم جن کے حقوق آزادی کے بعد سے ہی پامال ہو رہے ہیں اور برسراقتدار پارتی مسلسل غریب مسلمانوں پر کبھی مآب لنچنگ، سی اے اے ، این آر سی، تین نئے قوانین، بلڈوزر کلچر کے ذریعے تو کبھی دکانوں پر نام لکھنے کا فیصلہ دیکر ہراساں کر رہی ہے نیز نئے نئے قوانین لاکرپریشان کیا جارہا ہے اور غریب طبقہ کی معیشت کو تباہ کیا جارہاہے اور اب تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ قانون بناکر ہمارے اوپر ظلم و ستم ہوگا۔ہم صرف وقتی مسائل حل کرنا چاہتے اور کسی بھی مسئلہ کا دیرینہ حل نکالنا ہماری منصوبہ بندی میں شامل ہی نہیں ہے۔یعنی کہ ہمارا مقصد صرف بھاجپا کو ہرانا ہے حالانکہ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ انتخابات میں مسلمانوں کا کردار محض ووٹنگ کا رہا ہے باقی سیاسی،سماجی، معاشی طور پر دور دور تک ہمارا کوئی وجود نہیں ہے۔ نہ ہی کسی سیاسی پارٹی نے ہمارے اصل مدعوں کو موضوع بحث بنایا نہ ہی آبادی کے تناسب سے ٹکٹ تقسیم کئے گئے۔ پارلیمنٹ میں 72وزیر ہیں لیکن ایک بھی مسلم نہیں۔اس کی کیا وجہ ہے؟
یاد رکھیں ہمارا مقصد صرف بھاجپا کو ہرانا نہیں ہے اور سیکولرزم اور آئین کو بچانا صرف مسلمانوں کا کام نہیں ہے بلکہ ایس سی ایس ٹی کے ساتھ او بی سی اور بھارت کے تمام باشندوں کا کام ہے۔اس کے علاوہ مسلمانوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ آئین بچانے کا نعرہ دے کر کس طرح نام نہاد سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کا استحصال کر رہی ہیں۔اس لئے مسلمانوں کو اپنی سیاسی قیادت کو مضبوط کرنا چاہئے،جس سے ان کے مسائل ایوان تک پہنچے اور ان کا حل نکالا جائے اور مسلمانوں کو اس ملک میں صحیح نمائندگی مل سکے اور ہونے والے ظلم و ستم سے نجات مل سکے ۔
اتنی بڑی آبادی کے باوجود مسلم قیادت کا نہ ہونا باعث تشویش ہے جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے،ہم اس بات پر خوش ہیں کہ بی جے پی چار سو پار کا نعرہ پورا نہیں کر سکی اور ہم کامیاب ہو گئے حالانکہ اگر دیکھا جائے تو بی جے پی ہار کر بھی جیت ہی گئی اور اپوزیشن جیت کر بھی ہارنے کی پوزیشن میں ہی ہے۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس خوش فہمی سے نکل کر آنے والے انتخابات کی تیاری کریں اور اس بات کی کوشش کرے کہ آنے والے انتخابات میں ہم سیاسی،سماجی اور معاشی طور پر اثر انداز قوم بن کر ابھریں گے اور اپنی لیڈرشپ کھڑی کریں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم منصوبہ بندی کریں کہ کس طرح اس ملک میں ہمیں ہماری سیاسی حصہ داری مل سکے،ہم نہیں کہتے کہ اسمبلی کی سو سیٹیں ہمیں چاہیے مگر کسی کو اسمبلی کی سو سیٹیں ہماری تائید کے بغیر نہ مل سکے اس پوزیشن میں ہمیں آنا ہوگا، اس کام کے لئے ہمیں کسی نئی سیاسی پارٹی بنانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں ضرورت ہے ایسے میدانوں میں کام کرنے کی جس کی ضرورت ہر سیاسی جماعت کو ہو۔یعنی ہم بھلے ہی اپنی حکومت نہ بنائیں لیکن حکومت ہمارے ہی دم سے بنے اور چلے،کم سے کم ہم اس حالت میں ہوں کہ ہماری آواز ایوان میں سنی جائے۔
انتخابات کے دوران بہت بڑا رول میڈیا کا ہوتا ہے ، پھر چاہے پرنٹ میڈیا ہو الیکڑانک میڈیا ہو یا کوئی یوٹیوبر ہی کیوں نہ ہو،اگر واقعی اس کے یوٹیوب چینل میں دم ہو تو وہ بھی کافی اثر رکھتا ہے جیسا کہ 2024 انتخابات میں دھرو راٹھی، محمد زبیر، رویش کمار، اجیت انجم وغیرہ کے نام سامنے آئے۔ہمیں اپنے درمیان ایسے کئی باصلاحیت نوجوان تیار کرنے کی ضرورت ہے جو انتخابات میں میڈیا کے ذریعے اہم کردار ادا کر سکیں۔اسلئے کہ آپ بھلے ہی گودی میڈیا یا موڈی-فائیڈ میڈیا کو ہزاروں گالی دیں مگر آپ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ اس میڈیا نے اس ملک کو بڑے پیمانے پر متاثر اور تباہ کیا ہے۔ برسر اقتدار پارٹی کو اقتدار میں بنائے رکھنے میں یا منووادی اور پونجی وادی عناصر کو ایوان مین پہنچانے کیلئے رائے عامہ ہموار کرنے میں اس میڈیا نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔اب ہمیں اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ایسے افراد تیار کرنا ہے اور نتائج پر خوش ہونے کی بجائے آئندہ کے لئے تیاری کرنا ہے اور اپنے سیاسی اور سماجی شعور کا صحیح معنوں میں ثبوت دینا ہے تاکہ آپ اپنی لیڈرشپ کھڑی کر سکیں اور اپنی آواز ایوان تک پہنچا سکیں۔
چار صوبوں کے انتخابات سے قبل مسلمانوں کو تمام پارٹیوں سے مانگ کرنا چاہئے کہ وہ آبادی کے تناسب سے ٹکٹ تقسیم کریں، جس طرح ایس سی ایس ٹی کھل کر اپنی سیٹوں کے روٹیشن (Rotation) کی مانگ کر رہا ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی مطالبہ کرنا چاہئے۔اپنا کامن ایجنڈا بنا کر ریزرویشن کی بھی مانگ کرنا چاہئے جس سے کہ محض ایک ہی خاندان کو فائدہ نہ ملے۔ آئین کی دفعہ ۳۴۱؍ (۱۹۵۰ کے صدارتی آرڈر) کو ختم کرنے کیلئے ملکی سطح پر پر تحریک اور مومنٹ چلاکر اسے ختم کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے اور جو بھی نیتا یا پارٹی اسے ختم نہ کرنے کی بات کہے تو ان کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ خاص طور پر انتخابات میں منووادی پونجی وادی عناصر کا بائیکاٹ کریں۔ جب متحد ہوکر ان باتوں پر عمل کیا جائے گا تبھی مسلمان سرخ رو ہو سکتا ہے،ورنہ آج تک جس طرح آئین بچانے کے نام پر ، بھاجپا کو ہرانے کے نام پر، سیکولرزم کو بچانے کے نام پر مسلمانوں کا استحصال ہوتا رہا ہے آگے بھی ہوتا ہی رہے گااور مسلمان اپنے ہی ملک میں جس کے لئے آباواجداد نے ڈھیر ساری قربانیاں دیںظلم و زیادتی کے شکار ہوتے رہیں گے ۔