نئی دہلی 2اپریل: وقف ترمیمی بل پر بحث کے دوران کانگریس رکن پارلیمنٹ عمران مسعود نے الزام عائد کیا کہ وقف سے متعلق وہ لوگ بھی بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں، جو وقف کا مطلب بھی نہیں سمجھتے۔ انھوں نے لوک سبھا میں کہا کہ ’’آج وہ لوگ بول رہے ہیں، جو وقف کا مطلب بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ وقف کو مسلمان ہی سمجھتا ہے اور جانتا ہے۔ اتر پردیش میں 78 فیصد زمین کو سرکاری ملکیت بتا دیا گیا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’مسلمانوں پر شرطیں نافذ کی جا رہی ہیں۔ کئی جگہ وقف کی ملکیت کو سرکاری بتایا گیا ہے۔ یہ قانونی معاملوں میں مسلمانوں کو الجھائیں گے۔‘‘ مودی حکومت پر حملہ آور رخ اختیار کرتے ہوئے عمران مسعود نے کہا کہ ’’بابا صاحب امبیڈکر جی نے اپنے آئین میں ملک کے ہر شخص کے تحفظ کی بات کہی ہے۔ امبیڈکر جی نے کہا تھا کہ سیاسی جمہوریت تب تک نہیں ٹک سکتی، جب تک اس کی بنیاد میں سماجی جمہوریت نہ ہو۔ اور سماجی جمہوریت کا مطلب ہے زندگی کا ایک ایسا طرز جو خود مختاری، مساوات و بھائی چارہ کی زندگی سے متعلق اصولوں کو قبولیت دیتی ہے۔‘‘
وقف کے تعلق سے عمران مسعود کہتے ہیں کہ ’’وقف ایک طریقہ ہے، جس میں ایک مسلمان اپنی حیثیت کے حساب سے اپنی ملکیت کو، یا کسی بھی چیز کو اللہ کی راہ میں وقف کرتا ہے۔‘‘ ساتھ ہی وہ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’اس وقف بل کو ڈرافٹ کرنے والے جو لوگ تھے، ان میں بیشتر لوگ وقف کے بارے میں جانتے بھی نہیں۔ میں ایک بت بہت دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ 90 فیصد لوگ یہ بھی نہیں بتا پائیں گے کہ پاکی اور ناپاکی کیا ہوتی ہے، تو پھر آپ وقف کو کیا جانیں گے؟‘‘ اپنے خطاب میں عمران مسعود نے سچر کمیٹی کا بھی تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’2005 میں مختلف ریاستی بورڈس کے ذریعہ سچر کمیٹی کے سامنے یہ کہا گیا کہ دہلی میں 316، راجستھان میں 60، کرناٹک میں 42، مدھیہ پردیش میں 53، اتر پردیش میں 60، ادیشہ میں 53 ایسی پراپرٹی ہیں، جن کے اوپر حکومت نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس کے بعد جب یہ قانون نافذ ہو جائے گا تو اس کے اوپر سے وقف کا اختیار ختم ہو جائے گا۔‘‘ یہ تفصیل بیان کرنے کے بعد کانگریس رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ’’یہ (وقف بل) پوری طرح سے آئین مخالف ہے۔ یہ بل براہ راست آرٹیکل 14، آرٹیکل 16، آرٹیکل 26 اور آرٹیکل 25 کو اوورلیپ کرنے کا کام کرتا ہے۔‘