محمد وزیر انصاری المعروف بہ ایم-ڈبلیو-انصاری: شیخ سعدیؒ کے ایک مشہور شعر کا پہلامصرع ہے- ’’ہر کہ خدمت کرد او مخدوم شد‘‘-جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ جس نے خدمتِ خلق کو اپنا شعار بنایا، وہی انسانوں کی نظر میں باوقار اور محترم ٹھہرا۔ایسا شخص معاشرے میں عزت پاتا ہے ،اسے مربی و مخدوم اورمحسن کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔ایسے لوگ نہ صرف اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو حسنِ کارکردگی کے ساتھ نبھاتے ہیں، بلکہ انسانیت، سچائی اور عدل و انصاف کے علمبردار بھی ہوتے ہیں۔قرآن کریم میں ارشادہے : ’’ نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو‘‘(المائدہ ،آیت-2)۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ”لوگو! تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے‘‘(کنزل عمال ، جلد : 8، ص 201)۔یہی اوصاف کسی فرد کو محبوبِ خلق، مقبولِ عام اور اللہ کا نیک بندہ بناتے ہیں۔جناب محمد وزیر انصاری (ایم-ڈبلیو-انصاریIPS) ایسے ہی اوصاف کے حامل ایک قابلِ فخر شخصیت کا نام ہے، جنہوں نے پولیس انتظامیہ جیسے چیلنجز سے بھرپور شعبے میں اپنے فرائض کو دیانتداری، توازن، دور اندیشی اور قومی فکر کے ساتھ انجام دیا۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو، کردار، گفتار اور فکرمندی کا ایک دلنشیں استعارہ ہے۔
خاندانی پس منظر:
ایم-ڈبلیو-انصاری ملک کے ایک نامور آئی پی ایس افسرہیں۔ان کا تعلق ضلع غازی پور (اترپردیش) کے گاوئں‘’اوسیا‘ کے ایک معزز اور تعلیم یافتہ خاندان سے ہے۔ان کے والد حاجی احمد علی انصاری نہ صرف برطانوی ہندُستان میں ایک فرض شناس پولیس افسرتھے بلکہ ایک سرگرم مجاہد آزادی بھی تھے جبکہ ان کی والدہ حجن فتح مدینہ بی بی دیندار اور متقی و پرہیزگارخاتون خانہ تھیں۔ انصاری صاحب پانچ بھائیوں اور ایک بہن میںچوتھے ہیں۔ان کے بڑے بھائی محمد وکیل انصاری مرحوم ایئر فورس میں آنریری کیپٹن کے عہدے پر سبکدوش ہوئے،جب کہ دوسرے بھائی ڈاکٹر(پروفیسر) ایم ایم انصاری ایک بلند پایہ ماہر تعلیم ،ماہ ناز ماہراقتصادیات اور قومی اُمور کے نکتہ رس دانشور ہیں۔ وہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC)کے معزز رکن، چیف انفارمیشن کمشنر (CIC)اور جموں و کشمیر کے لیے حکومتِ ہند کے نامزد ثالث کے طور پر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کی فکری گیرائی اور تدبر کے باعث انہیں سابق وزیرِ اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے قریبی مشیروں میں شمار کیا جاتا تھا۔ مزید برآںوہ منصوبہ بندی کمیشن کے سینئر مشیر کی حیثیت سے بھی ملک کی پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔تیسرے بھائی حاجی بادشاہ انصاری اپنے وقت کے معروف پہلوان رہے اورکلکتہ پولس سے رضاکارانہ سبکدوشی حاصل کرکے سماجی خدمت میںمصروف ہوگئے۔وہ اپنے گائوں ’اوسیا ‘میں جہانگیریہ گرلس ہائی اسکول کے بانی سکریٹری اور’اوسیا اسلامیہ اسکول ‘کے صدر رہے ۔جبکہ ان کے چھوٹے بھائی حاجی نواب اختربھی اعلی تعلیم یافتہ ہیںاورایک فعال سماجی و دینی شخصیت ہیں۔
تعلیم اور پیشہ ورانہ خدمات :
جناب ایم-ڈبلیو- انصاری یکم جنوری 1958ء کو پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم کے بعدعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ سے بی ایس سی(آنرس) اور ایل ایل بی( آنرس) کی ڈگریاں حاصل کیں۔کچھ عرصہ وکالت کرنے کے بعد یوپی ایس سی امتحان میں کامیاب ہوکر1984ء میںانڈین پولس سروس میں شامل ہوئے۔ابتدائی طور پر مدھیہ پردیش کیڈر میں خدمات انجام دیں، بعد ازاں ریاست چھتیس گڑھ کے قیام کے بعد وہاں کے کیڈر میں شامل کیے گئے۔اپنے شاندار کیریئر کے دوران انہوں نے پولیس انتظامیہ کو مؤثراور چاق و چوبند بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ نظم و نسق کی بحالی، جرائم کی روک تھام اور سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ امن و امان اور بھائی چارے کے فروغ میں ان کی خدمات قابلِ ذکر ہیں۔ مختلف اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہتے ہوئے انہوں نے مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور 31 دسمبر 2017 کو ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (DGP) کے عہدے سے باعزت طور پر سبکدوش ہوئے۔ ان کی غیرمعمولی خدمات کے اعتراف میں انہیں 2001 میں پولیس صدارتی تمغہ اور نیشنل امبیڈکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔انہوں نے وزارت اقلیتی امور ،حکومت ہندکے تحت مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن میں بطور سیکریٹری بھی اہم خدمات انجام دیں۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں کی بدولت ادارے کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی اور کئی پائیدار اصلاحات متعارف ہوئیں۔اپنی 34 سالہ ملازمت کے دوران انہوں نے ہمیشہ ملک و قوم کے مفادات کو مقدم رکھا اور اپنے کردار پر کبھی کوئی حرف نہ آنے دیا۔ اپنی صلاحیت، دیانت داری اور خلوصِ خدمت سے یہ ثابت کیا کہ وہ نہ صرف ایک سچے مسلمان بلکہ اپنے وطن کے بہادر،فرض شناس اور قابل فخر سپوت بھی ہیں۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد عمرہ کی سعادت حاصل کی اور بعد ازاں 2022ء میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ حج بیت اللہ سے بھی مشرف ہوئے۔
سماجی سرگرمیاں :
جناب ایم ڈبلیو انصاری، پولیس محکمے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود، ہمیشہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر مختلف سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ سبکدوشی کے بعد اکثر افراد اپنی سرگرمیاں محدود کر لیتے ہیں اور سکون و راحت کی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن جنابِ والا نے اپنی سبکدوشی کے بعد خود کو پوری طرح قوم و ملت کی خدمت کے لیے وقف کر دیا ہے۔انہوں نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، نیپال، جرمنی، بھوٹان، انگلینڈ اور یونان سمیت متعدد ممالک کے دورے کیے۔ ان اسفار کے دوران حاصل شدہ مشاہدات و تجربات کو انہوں نے وطن کے غریب، نادار اور پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کے لیے بروئے کار لانے کی سعی کی۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ خدمتِ خلق، اصلاحِ معاشرہ اور قوم کی ترقی کے جذبے سے سرشار نظر آتا ہے۔ان کا ایک نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ وہ اُن تاریخی اور قومی شخصیات کے کارنامے و خدمات کو اجاگر کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں جنہیں تعصب یا غفلت کی بنا پر فراموش یا تاریخ کے صفحات سے مٹا دینے کی شعوری کوششیں کی گئیں۔ ان کا مقصد صرف ماضی کو روشن کرنا نہیںبلکہ موجودہ اور آئندہ نسلوں کو ان گمنام شخصیات کے کردار سے روشناس کرانا بھی ہے، جنہوں نے قوم و ملت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔
مولاناعلی حسین عاصم بہاری :
مولانا علی حسین عاصم بہاری ایک مجاہدِ آزادی، مصلحِ قوم، خطیبِ باکمال اور پسماندہ طبقات کے بے لوث رہنماء تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی مسلم سماج، خصوصاً محنت کش اور غریب طبقات کی اصلاح و بیداری کے لیے وقف کر دی۔ وہ ایک حساس دل، بالغ نظر اور بلند حوصلہ شخصیت تھے جنہوں نے مومن انصاری برادری سمیت دیگر پسماندہ طبقات کی معاشی، تعلیمی اور سماجی پسماندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، محسوس کیا اور اس کے ازالے کے لیے ہمہ جہت کوششیں کیں۔ انہوں نے تعلیم، تنظیم، معاشی خوشحالی اور اخلاقی تربیت کو اپنی تحریک کا مرکز بنایا اور ملک گیر سطح پر جمعیۃ المومنین، آل انڈیا مومن کانفرنس، جمعیۃ الشبان انصار اور زنانہ سیکشن جیسی تنظیموںکے قیام میں عملی حصہ لیا اورجدوجہد کی۔ ان کی بے باک خطابت اور نرم خوئی نے پس کردہ طبقات کے دلوں میں امید جگائی۔ ان کی طرزِ زندگی ایثار، صبر، حلم اور اخوت و بھائی چارہ کی درخشاں مثال تھی—یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے اوپر جان لیوا حملہ کرنے والے کو، جب اُس نے پشیمانی کا اظہار کیا، نہ صرف معاف کر کے گلے لگا لیا بلکہ قید کے دوران اُس کے اہلِ خانہ کی مالی مدد بھی کرتے رہے۔ مہاتماگاندھی،مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا محمد علی جوہر جیسے رہنماؤں سے روابط رکھنے والے مولانا عاصم بہاری نے نہ صرف مسلمانوں کے اندر اتحاد و اخوت کو فروغ دیا بلکہ مومن تحریک کو صحافت، ادب، تعلیم اور تنظیمی میدان میں فعال بنا نے اورایک فکری و انقلابی تحریک کی بنیاد ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مولاناعلی حسین عاصم بہاری کی حیات و خدمات پر انجام دیئے گئے بعض کام:
مولانا علی حسین عاصم بہاری کی شخصیت کی عظمت کا اندازہ ان کی گراں قدر سماجی و سیاسی خدمات اور انقلابی کارناموں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، مگر افسوس کہ انہیں وہ مقام حاصل نہ ہو سکا جس کے وہ حقیقی معنوں میں مستحق تھے۔ ان کی حیات و خدمات پر تحقیقی سطح پر کوئی منظم و ہمہ جہت کام نہیں کیا گیا، حالانکہ یہ وقت کی اہم ضرورت تھی۔ البتہ 23 مئی 1982ء کو ان کے آبائی شہر بہار شریف، ضلع نالندہ (بہار) میں ’’کل ہند یومِ عاصم بہاری‘‘ کے عنوان سے ایک یادگاری پروگرام منعقد کیا گیا، جس کے موقع پر شاہد نظامی(عماد پور، بہار شریف) کی ادارت میں مرحوم رہنما ء کی حیات و خدمات پر مبنی ایک مجلہ بھی شائع کیا گیا۔
بعد ازاں پروفیسر احمد سجاد (رانچی)نے 2011ء میں 702 صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ’’بندۂ مومن کا ہاتھ یا تاریخِ آل انڈیا مومن کانفرنس‘‘ کے عنوان سے تصنیف کی، جس کا اجراء پہلے رانچی میں ہوا،پھر دہلی اوراس کے بعد وزیراعلیٰ سکریٹریٹ، پٹنہ کے ’’سَنواد بھون‘‘ میں وزیر اعلیٰ جناب نتیش کمار کے ہاتھوں عمل میں آیا۔یہ تمام کوششیں قابلِ قدر تھیںاور یہ امر متقاضی تھا کہ مولانا عاصم بہاری کی خدمات کو منظم طریقے قومی سطح پر اجاگر کیا جائے، اسی احساس نے کچھ سنجیدہ اہلِ فکر کو مزید اقدامات پر آمادہ کیا۔

ایم ڈبلیو انصاری اورمولاناعلی حسین عاصم بہاری :
مولانا علی حسین عاصم بہاری کی شخصیت و خدمات کے تعارف اور ان کے افکار کو عام کرنے کی ایک کوشش کے تحت انصاری کلچرل سنٹر،لکشمی نگر ،دہلی کے زیر اہتمام 15 اپریل 2014ء کو ان کی یاد میں ایک سیمینار الٰہ آباد (یوپی) میں منعقد ہوا، جس میں مہمانِ خصوصی کے طور پر جناب ایم۔ ڈبلیو۔ انصاری نے شرکت کی۔ اپنی ولولہ انگیز تقریر میں انہوں نے مرحوم رہنماء کی ہمہ جہت شخصیت اور ان کی تاریخی خدمات کو اجاگر کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہیں پسماندہ طبقے کا بطلِ جلیل(Super Hero)قرار دیا۔ جناب انصاری کی بصیرت افروز گفتگو ء سے متاثر ہوکر اردو ہفت روزہ ’’صدائے انصاری،لکشمی نگر، دہلی‘‘کے مدیرجناب انصاری اطہر حسین نے مرحوم رہنما ء کے 125ویں یومِ پیدائش کے موقع پر ایک خصوصی شمارہ(جلد: 16، شمارہ: 32، مورخہ: 4 تا 10 مئی 2014ء) شائع کیا۔ اس شمارے کو عوام و خواص میں بے حد پذیرائی ملی اور مرحوم رہنما ء کے بارے میں عوامی تجسس مزید اضافہ ہوگیا۔عوامی دلچسپی اور تقاضوں کے پیش نظر ’’صدائے انصاری‘‘ نے ان کے 131ویں یومِ پیدائش کے موقع پر ایک بار پھرایک خصوصی شمارہ(جلد: 23، شمارہ: 12، مورخہ: 6 تا 12 دسمبر 2020ء) شائع کیا، جو ان کے فکر و فن، جدوجہد اور خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک کامیاب کوشش ثابت ہوئی۔
مولانا عاصم بہاری کی شخصیت اور ان کی خدمات و کارناموں کو منظرِ عام پر لانے کے لیے کی گئیں مذکورہ بالا کوششوں اور ان سے پیدا ہونے والی عوامی مقبولیت سے ترغیب پاکر، جناب ایم۔ ڈبلیو۔ انصاری نے اپنے دیرینہ فکر کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے مارچ 2021ء میں ایک نئے عزم و حوصلے کے ساتھ الٰہ آباد(یوپی) کا سفر کیا۔ وہاں انہوں نے اپنے بعض رفقا کے ہمراہ تکیہ قبرستان، اٹالہ (الٰہ آباد) میں مولانا مرحوم کی قبر کی شناخت کی، جو خستہ حالی کا شکار تھی، جس کی مرمت و اصلاح کا انہوں نے فیصلہ کیا۔بعد ازاں اکتوبر 2021ء میں وہ دوبارہ الٰہ آباد تشریف لے گئے جہاںمرحوم رہنماء کے ایک پوتے جناب کامران انصاری (مستقل سکونت: راجہ بازار، پٹنہ) بھی وہاں آگئے۔ جناب ایم۔ ڈبلیو۔ انصاری نے اپنے مخلص احباب—انجینئر نظام الدین انصاری، محمد اسرار انصاری، زبیر انصاری، انجینئر فریدالحق انصاری، سہراب انصاری، منہاج الدین انصاری، حاجی احسان اللہ انصاری، محمد وکیل انصاری، ڈاکٹر خورشید عالم انصاری، محمود انصاری، اور حکیم رشاد الاسلام انصاری وغیرہ—کے مشورے اور تعاون سے مرحوم رہنما کی قبر کی پختہ اینٹوں سے حصار بندی اور تربت کی مرمت کرائی۔ اس موقع پر جناب کامران انصاری بذاتِ خود موجود تھے جس کے لیے انہوں نے کچھ مالی تعاون بھی پیش کیا۔پروفیسرمحترمہ صالحہ رشید کے مشورے اور قلمی معاونت سے قبر کے سرہانے ایک سنگِ مرمر کا کتبہ نصب کیا گیا تاکہ قبر کی شناخت محفوظ رہے۔ بعد ازاں، جناب ایم۔ ڈبلیو۔ انصاری نے بارہا مرحوم رہنما ء کے حوالے سے اخبارات میں بیانات دیے، مختلف چینلز اور سوشل میڈیا پر آڈیو و ویڈیو کلپس جاری کیے، جس کے نتیجے میں ایک فکری و جذباتی فضا ہموار ہوئی اور سماجی و سیاسی حلقوں میں مولانا علی حسین عاصم بہاری کے تئیں تجسس و دلچسپی میں اضافہ ہوا۔
اپنے مقصد کو عملی شکل دینے کے لیے جناب انصاری نے بخت میاں انصاری عرف بطخ میاں انصاری، جنہوں نے مہاتما گاندھی کی جان بچائی تھی— پرپہلے ایک کتابچہ اور پھر مکمل کتاب ’’بطخ میاں کی انوکھی کہانی‘‘ترتیب دے کر شائع کرائی ۔اس کے بعد انہوں نے’’شہید شیخ بخاری عرف بھکاری انصاری اور پہلی جنگِ آزادی 1857ء‘‘ جیسی کتاب بھی ترتیب دے کر زیور طبع سے آراستہ کیا۔ان کوششوں کے تسلسل میں جناب انصاری نے خصوصی طور پر مولانا علی حسین عاصم بہاری کی حیات و خدمات پر 2022 میں ایک جامع کتاب ’’مولانا علی حسین عاصم بہاری: اخوتِ اسلامی کا مبلغ اور دلت مسلمانوں کا مسیحا‘‘ کے عنوان سے شائع کرائی۔اس کتاب میں شامل راقم الحروف کا مضمون ’’عاصم بہاری اور ڈاکٹر امبیڈکر کی حیات و خدمات: ایک مختصر تقابلی جائزہ‘‘ قارئین میں بے حد مقبول ہوااور اسے ستائش و تحسین سے نوازاگیا۔اس مضمون میں مولانا عاصم بہاری کو مسلمانوں کا ’’امبیڈکر‘‘قرار دیا گیاہے۔ کتاب کی مقبولیت کے پیش نظر اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا گیا تاکہ اردو نہ جاننے والے افراد بھی مولانا عاصم بہاری کی خدمات سے واقف ہو سکیں۔یہ واضح رہے کہ جناب انصاری کے توسط سے شائع شدہ ان کتابوں میں اردو ہفت روزہ’’ صدائے انصاری‘‘ میں شائع شدہ متعدد مضامین کے علاوہ و بعض دیگر اہل قلم کی نگارشات شامل کی گئی تھیں۔
ان علمی کاوشوں کا دائرہ محض کتابوں کی اشاعت تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک فکری تحریک کی بنیاد بن گیا، جس کا مقصد محروم طبقات، پسماندہ قوموں اور تاریخ کے حاشیے پر ڈال دی گئی شخصیات کو ان کا جائز مقام دلانا ہے۔ اس کے اثرات صرف ادبی حلقوں تک محدود نہ رہے بلکہ سماجی و سیاسی سطح پر بھی نمایاں طور پر محسوس کیے گئے اور نئی فکر کی راہیں ہموار ہوئیں۔ ان کی کاوشوں کے نتیجے میں وہ شخصیات جو طویل عرصے سے تعصب، طبقاتی نظراندازی یا علمی بے توجہی کا شکار تھیں، دوبارہ قومی منظرنامے پر ابھرنے لگیں۔ عاصم بہاری کی حیات و خدمات پر مبنی ان کی مرتب کردہ کتاب میں موجود تقابلی مطالعے نے مولانا عاصم بہاری کو ’’ثانیِ امبیڈکر‘‘ یا ’’مسلمانوں کا امبیڈکر‘‘ قرار دینے کی بنیاد فراہم کی، جسے علمی و عوامی سطح پر بے حد پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس کتاب کے انگریزی ترجمے کی اشاعت نے انہیں بین الاقوامی قارئین تک بھی پہنچایا اور آج یہ شخصیات قومی و سماجی گفتگو کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ خاص طور پر مولانا علی حسین عاصم بہاری کو نئی نسل کے ذہن میں اجاگر کرنے میں جناب انصاری کی محنت کا بڑا دخل ہے۔ رفتہ رفتہ وہ تحریک پروان چڑھنے لگی جس کا مقصد مسلمانوں اور خاص طور پر پسماندہ طبقات کی نمائندہ شخصیات کو ان کا کھویا ہوا وقار واپس دلانا ہے۔ اب ان عظیم شخصیات کی یاد میں سالانہ تقاریب کا انعقاد، ان کے مزار پر رسمی خراجِ عقیدت اور ان کے نام پر علمی و سماجی سرگرمیاں ایک عام روایت بنتی جا رہی ہیں۔ جناب انصاری کے عزم، بصیرت اور مسلسل کوششوں نے ثابت کر دیا ہے کہ اگر ارادہ نیک ہو اور سمت درست، تو تاریخ کے اندھیروں میں چھپی روشنی کو ایک بار پھر جگمگایا جا سکتا ہے۔