مولانا علی حسین عاصم بہاریؒ نے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی طرح سماجی ناانصافی، ذات پات کی تفریق اور معاشرتی نابرابری کے خلاف اپنی زندگی وقف کر دی۔ انہوں نے مومن کانفرنس کے ذریعے مومن انصاری اور دیگر پسماندہ مسلم برادریوں کی فلاح و بہبود اور تنظیم سازی میں نمایاں کردار ادا کیا، تاہم افسوس کہ آج الٰہ آباد میں ان کی قبر بھی گمنامی کا شکار ہے۔ سابق ڈی جی پی چھتیس گڑھ جناب ایم ڈبلیو انصاری نے کانگریس سمیت مختلف سرکاروں کے رویے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا جہاں ڈاکٹر امبیڈکر کی یوم ولادت پر سرکاری و غیر سرکاری سطح پر شاندار تقریبات منعقد کی جاتی ہیں تو مولانا علی حسین عاصم بہاری یکدم نظر انداز کردیے گئے ہیں۔جبکہ ڈاکٹرامبیڈکر کی طرح ہی مولانا عاصم بہاریؒ کی قربانیوں کو نئی نسل سے متعارف کرانا ضروری ہے۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ بی جے پی پسماندہ مسلمانوں کے ساتھ محض دکھاوے کی ہمدردی کا مظاہرہ کر رہی ہے، جبکہ 1950 کے صدارتی فرمان کی دفعہ 3 سے مذہب کی قید کو ختم نہ کرنا اس کی مثال ہے، جس کے تحت مسلمانوں کو درج فہرست ذاتوں کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ ہم مولانا عاصم بہاریؒ کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے تعلیم، اتحاد اور آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے متحد ہوں، تاکہ سماجی انصاف قائم ہو اور ملک کی ساجھی وراثت محفوظ رہے۔
آل انڈیا مومن کانفرنس کے جنرل سکریٹری محمد عارف انصاری نے کہا کہ مولانا عاصم بہاری مسلمانوں کے امبیڈکر ہیں جنہوں نے سماجی تفریق کے خاتمے اور ملت کی شیرازہ بندی کے لیے کام کیا۔ انہوں نے وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کو پسماندہ برادری کے حق میں قرار دینے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا، سوال کیا کہ اس کی کون سی شق سے فائدہ ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ 60 فیصد سے زائد وقف جائیدادیں مساجد، قبرستانوں، اور دیگر مقامات پر مشتمل ہیں، جن سے پسماندہ طبقہ پہلے ہی مستفید ہے۔ ایکٹ میں پسماندہ طبقے کے لیے کچھ نہیں، سوائے دو اراکین کی شمولیت کے، جن کے اختیارات واضح نہیں۔ اگر وقف جائیدادیں ختم ہوئیں تو اراکین کا کیا فائدہ؟ مومن انصاری سمیت پسماندہ برادری اس ایکٹ کے خلاف ہے اور اسے رد کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سابق ڈی جی پی چھتیس گڑھ جناب ایم ڈبلیو انصاری کے ساتھ ان کی حضرت امیر شریعت احمد فیصل ولی رحمانی سے ملاقات ہوئی، جنہوں نے مسلمانوں کے درمیان ذات برادری کی تفریق ختم کرنے کی کوششوں کے اپنے عزم کا اظہار کیا اور ہم ان کے ساتھ ہیں۔
وہیں تنویر عالم انصاری نے مومن و دیگر پس کردہ مسلم برادریوں سے گزارش کی کہ وہ مومن کانفرنس کے بینر تلے متحد ہوں تاکہ ان کے مفادات کا تحفظ ممکن ہوسکے۔انہوں نے کہا کہ مولاناعاصم بہاری کی پوری زندگی کا ماحصل یہی تھا کہ غریب،مزدور، مفلوک الحال اور مفلوک الحال طبقات کے لوگ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے بیدار ہوں اوراپنے اندر نظم و ضبط پیدا کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ اسی فکر کو ان کے دادا عبدالقیوم انصاری نے پروان چڑھا یا اور حقیقت میں بدل دیا۔انہوں نے روئے تخاطب وزیر اعلی نتیش کمار کی طرف کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو پسماندہ طبقات کے محسن کہے جا رہے ہیں لیکن ان کی نظر التفات سے مسلم پسماندہ طبقات کے رہنماء محروم کیوں؟صدائے انصاری کے مدیر اطہر انصاری نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ عظیم مجاہد آزادی عبدالقیوم انصاری مرحوم کو پس از مرگ ’’بھارت رتن‘‘ سے نوازا جائے۔اخیر میں انہوں ن اس جلسے کے مہتمم نوشاد اعظم کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ جہاں پسماندہ طبقات کے رہنمائوں کو لوگ نظر اندازکر رہے ہیں وہیں انہوں نے عاصم بہاری کی یوم ولادت پر ایسی مجلس منعقد کرکے اچھی مثال پیش کی ہے۔اس موقع پر جناب نوشاد اعظم نے تمام مہمانوں کا شکریہ اد کیا۔ جلسے کاا نعقادآج امتیاز احمد انصاری میموریل ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام بہار چیمبر آف کامرس،گاندھی میدان،پٹنہ میں ہوا جس کا آغاز تلاوت قرآن پاس سے ہوا۔ جناب عطا اشرف،سنجر علی فرید ، ڈاکٹر محبوب عالم (انصاری) چیئرمین – بھارتیہ نشنل فرنٹ ،ہشام الدین ، محمد نسیم انصاری (بی ایچ ایس) ، ماسٹر منصور عالم (گیا)،ڈاکٹر مبصر حیات (بی ایچ ایس) ، ایڈووکیٹ ابو حیدر (این۔ اے۔ کالونی) ، ڈاکٹر آصف (چکیا) ، انجینئر سید سہیل (آر کے نگر) ، ڈاکٹر قاسم انصاری (ڈھاکہ – ای سی)، محمد خالد اقبال (جمشید پور) حضرات خصوصیت کے ساتھ شرک ہوئے اور اظہار خیال کیا۔