بھوپال :21؍جولائی :کسی بھی ملک کی معیشت کو فروغ دینے میں سرمایہ کاری کا بنیادی کردار ہوتا ہے لیکن جب یہی سرمایہ کاری سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بن جاتی ہے اور سرمایہ دار اپنے سرمایہ کا استعمال عوامی فلاح کے لئے نہ کرکے اپنے مفاد کے لئے کرتے ہیں تو یہ پسماندہ سماج کے لئے ناسور بن جاتاہے۔ہمارے ملک میں آزادی کے بعد بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن سے پسماندہ طبقات کو فائدہ ملاہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام اور فسطائی عناصر سے آج تک نجات نہیں مل سکی ہے۔یہ فسطائی طاقتیں اور سرمایہ دار کسی ایک سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہیں بلکہ یہ اپنے مفاد کے لئے ملک کے چھوٹی بڑی سبھی سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں اور جو بھی پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے اس سے اپنے مفاد کو پورا کرنے کے لئے یہ سبھی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ ذہنیت اور فسطائی عناصر کے لوگ صرف سیاسی جماعتوں میں ہی نہیں ہیںبلکہ یہ بیوروکریسی،سماجی کارکنان اور ٹیچنگ و نان ٹیچنگ طبقے سے بھی وابستہ ہیں۔بظاہر تو یہ باتیں پسماندہ طبقات کو اوپر لانے کی کرتے ہیں لیکن پس پردہ ان کی ساری کوششیں سماج کے پسماندہ طبقات کے خلاف ہوتی ہیں۔ان کی کوششیں پسماندہ طبقات کو اور پسماندہ کرنے کی ہوتی ہے۔انہیں معلوم ہے کہ اگر پسماندہ طبقہ تعلیم سے آراستہ ہوگیا تو ان کے عیش و عشرت کے دن ختم ہو جائیں گے۔ یہ عناصر ہندو اور مسلم دونوں طبقات میں پائے جاتے ہیں۔مسلم معاشرے میں ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز کی باتیں ضرور کی جاتی ہیں لیکن عملی طور پر اس کا ہر قدم پر فقدان دیکھنے کو ملتا ہے۔مسلم طبقے میں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام اتنا حاوی ہے کہ مسلمانوں کے پڑھے لکھے اور اعلی عہدوں پر فائز طبقہ کو پسماندہ مسلمانوں کے ساتھ بیٹھنے میں بھی شرم آتی ہے اور اس نظریہ کا سب سے زیادہ نقصان دلت مسلم،اوبی سی مسلم اور سماج کے پچھڑے ہوئے مسلمانوں کو ہوتا ہے۔
ملک کا پسماندہ مسلم طبقہ جب کسی مسلمان بیورو کریٹ یا ایم ایل اے،ایم پی کو دیکھتا ہے تو اسے ایک امید ہوتی ہے کہ اس کے لئے ضرورت پڑنے پر اس کے کام آئے گا لیکن معاف کیجئے گا پڑھا لکھا مسلمان اور مسلم لیڈر اتنا سیکولر ہوجاتا ہے کہ اسے اپنے سماج کا کام کرنے سے ہی پرہیز ہوجاتا ہے۔حکومتیں مسلمانوں کو وزارت میں حصہ اس لئے دیتی ہیں کہ مسلم وزیر اپنوں کے مسائل حل کرینگے مگر نتیجہ برخلاف سامنے آنے پر مسلم سماج کا حاشیہ پر جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد اگر مسلم قیادت نے کمیونٹی کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کیا ہوتا تو آج پسماندہ مسلمانوں کی تعلیم،روزگارکے مسائل ناسور بن کر نہ کھڑے رہتے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسلمانوں میں طبقاتی نظام کی پرورش سے پسماندہ مسلمان اپنے کو حاشیہ پر محسوس کر رہا ہے۔مسلمان کا طبقہ اشرفیہ طبقہ ارزال کے لوگوں کو ساتھ بیٹھانے کو تیار نہیں ہے اور خود پسماندہ مسلمانوں میں جو لوگ تعلیم حاصل کرکے کسی طرح آگے بڑھ گئے ہیں ان میں بھی سرمایہ دارانہ نظام اس قدر گھر کرگیا ہے کہ انہیں اپنے ہی سماج کے لوگوں کے ساتھ بیٹھنے میں اب تکلیف ہونے لگی ہے۔ایسے میں دلت مسلم، اوبی سی مسلم طبقہ کے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے طبقہ اشرافیہ اورمسلم سرمایہ داروں کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھنے کے بجائے ’’خود مدد کے نظام‘‘ Self Help Systemکے تحت اپنی مدد آپ کرنے کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سماج کے پسماندہ طبقہ کے لئے کام کرے۔اس کے لئے سب سے بنیادی چار باتیں ہیں جنہیں ہم انگریزی میں فور ٹی(Four-T) اور اُردو میں چار ’ت‘ کہتے ہیں۔ یعنی تعلیم(اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم)، تجارت و روزگار، تجویز و تدبیر اور تعاون یہ ہوگا تنظیم سے اور ان سب سے ہی ترقی ممکن ہے۔تعلیم سب سے اہم ہے اس لئے کہ تعلیم سے ہی جہالت کا اندھیرا چھٹے گا اور قوم کا مستقبل روشن ہوگا۔اسلئے سب سے زیادہ توجہ اعلیٰ تعلیم پر دینے کی ضرورت ہے۔ تنظیم کا مطلب ہے اتحاد ،ایک دوسرے کا تعاون،متحد ہوکر منظم طریقے سے کام کریں گے تو یقینا اس کا نتیجہ برآمد ہوگا ،اسی میں تجارت کو بھی شامل کرلیں کہ منظم طریقے سے تجارت کرنے والے بھائیوں کی معاونت کی جائے، تیسرا ہے تدبیر : یہ بات صحیح ہے کہ کوئی بھی اگر بغیر سوچے سمجھے بنا منصوبہ بندی کے ہوگا تو وہ پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا ۔جب یہ تمام کام ہوں گے تو سو فیصد کامیابی اور ترقی مل کر رہے گی۔کیونکہ جب تعلیم ہوگی تو اپنوں کی ترقی کے لئے تنظیم تشکیل دینگے اور جب تنظیم ہوگی تو یہ اپنوں کے لئے تدبیر کرینگے اور جب تعلیم کے ساتھ تنظیم اور تنظیم کے ساتھ تدبیر ہوگی تو ترقی کی راہیں خود بخود ہموار ہوتی چلی جائینگی۔اس کے علاوہ ہمارے سامنے چار چیلنجز بھی ہیں جن کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کرنا ہے پہلا ہے دلت، ایس سی / ایس ٹی کا منظم خاتمہ، (Systematic Elimination) یعنی منصوبہ بند طریقے سے پسماندہ طبقات کو ختم کرنا ، دوسرا ہے Suppression یعنی اس طبقے کو کبھی آگے نہیں بڑھنے دینا ہمیشہ دبا کر رکھنا، تیسرا ہے امتیازی سلوک (Discrimmation) ہر محاذ ہر شعبے میں پسماندہ طبقے کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے، اور چوتھا ہے Deprivation یعنی محرومی،یہ بھی سوچی سمجھی سازش کے تحت پسماندہ برادری کو ان کے آئینی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ اب ان چیلنجز کا مقابلہ کیسے کیا جائے ؟اور اس کا طریقہ کار کیا ہو،تو یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ ان چار وں2S/ 2D کا مقابلہ چار T سے کرنا ہے تبھی اس ملک میںدلت مسلم،دلت پسماندہ SC/STاوبی سی اور دیگر پسماندہ مسلمانوں سرخ روٗ ہوں گے۔نیز اپنی لیڈر شپ بھی تیارکرنا ہوگی۔سماج کے لوگوں میں سیاسی شعور بیدارکرناہوگا۔آبادی کے تناسب سے لوکل باڈیز کے انتخاب کے ساتھ اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخاب میں بھی سیاسی پارٹیوں سے ٹکٹ کا مطالبہ کرنا ہوگا۔جو سیاسی پارٹی دلت مسلمانوں،اوبی سی مسلمانوں اور پسماندہ مسلمانوں کو سیاست میں حصہ داری یا شرکت داری کے اصول پر کام کرنے کے لئے تیار ہو اس کے ساتھ سیاسی میدان میں شرکت کی جائے اور جو سیاسی پارٹیاں حصہ داری سے گریز کریں ان کا سیاسی بائکاٹ کرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے الیکشن میں ان کو مزہ بھی چکھانا ہے اور یہ کام سیاسی اور سماجی شعور سے ہی ممکن ہے۔جب تک آپ کی تعلیمی اور سیاسی طاقت کا خوف سیاسی پارٹیوں کو نہیں ہوگا تب تک وہ آپ کو اقتدار میں حصہ دارنہیں بنائیں گے۔اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ دلت مسلم،دلت اوبی سی اور پسماندہ مسلمان اپنا کامن ایجنڈا تیار کریں اور اپنے کامن ایجنڈے پر متحد ہوکر کام کریں۔