بھوپال:24؍مئی:مدھیہ پردیش اردو اکادمی، محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام ضلع ادب گوشہ، نرمدا پورم کے ذریعے سلسلہ کے تحت مہاویر چکر فاتح شہید برگیڈیر محمد عثمان کو منسوب شعری و ادبی نشست کا انعقاد 25 مئی، 2025 کو دوپہر 3:30 بجے سرسوتی ششو مندر، نرمدا پورم میں ضلع کوآرڈینیٹر سوربھ یادو کے تعاون سے کیا گیا۔
اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے پروگرام کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے مہاویر چکر فاتح برگیڈیر محمد عثمان کی بہادری اور مادر وطن کے تئیں ان کی بے لوث قربانی اور وفاداری کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اردو اکادمی کے پروگرام سلسلہ کو برگیڈیر محمد عثمان کی یاد میں منعقد کرنے کی تجویز پیش کرنے کے لیے نرمدا پورم ضلع کے کوآرڈینیٹر سوربھ سوریہ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں برگیڈیر محمد عثمان کی یاد میں پروگرام منعقد کرنا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری تھا۔ اس پہل سے پروگرام بامقصد ہوا۔ ایم پی اردو اکادمی کا مقصد بھی یہی ہے کہ ایسی محبان وطن اور تحریک دینے والی شخصیات کو یاد کرکے سماج کو ان کی وراثت سے جوڑا جائے۔نرمدا پورم ضلع کے کوآرڈینیٹر سوربھ یادو نے بتایا کہ منعقدہ پروگرام میں سلسلہ کے تحت دوپہر 3:30 بجے شعری و ادبی نشست کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت نرمدا پورم کے سینئر شاعر ستیش شمی نے کی۔ساتھ ہی مہمانان ذی وقار کے طور پر نرسنگھ پور کے سینئر شاعر انیس شاہ، آرتی شرما اور ڈاکٹر جاوید نعمانی اسٹیج پر جلوہ افروز رہے۔ نشست کی شروعات میں مہاویر چکر فاتح شہید برگیڈیر محمد عثمان کی شخصیت اور کارناموں کے حوالے سے صحافی امت بلورے نے گفتگو کرکے انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔انھوں نے کہا کہ مدھیہ پردیش اردو اکادمی، محکمہ ثقافت نے برگیڈیر محمد عثمان کو یاد کرکے جتا دیا ہے کہ ہم مذہب سے پرے نہ صرف غور و فکر کرتے ہیں، بلکہ اس فکر کی تعمیل بھی کرتے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ مہاویر چکر فاتح ہمارے پرکھے ہیں۔ تقسیم ہند کے وقت پاکستان نے برگیڈیر محمد عثمان کو پاکستانی فوج کا اعلیٰ ترین عہدہ دینے کا لالچ دیا تھا، لیکن محمد عثمان نے کہا کہ ہندوستان ان کی سرزمین ہے۔ جس سے بڑا کوئی عہدہ، کوئی دولت نہیں ہوسکتی۔ 1948 میں پاکستان کے ذریعے قبضے میں لیے گئے ہمارے نوشیرا علاقے کو محمد عثمان نے تھوڑے وقت میں ہی اپنی شجاعت کے دم پر پاکستان سے واپس لے لیا تھا جس کی وجہ سے آج بھی برگیڈیر محمد عثمان کو ‘نوشیرا کا شیر’ کہا جاتا ہے۔ہمیں فخر ہے کہ محمد عثمان ہمارے ذہنوں میں آج بھی ایک قابل تقلید قومی فکر کی صورت میں زندہ ہیں۔
شعری نشست میں جو اشعار پسند کیے گئے وہ درج ذیل ہیں:
اتنا اثر ہوا ہے پھولوں کی مار سے
پتھر بھی کٹ رہا ہے اشکوں کی دھار سے
ستیش شمی
ترنگے کا بدن چھوکر ہوائیں جب بھی آتی ہیں
ہمارے من میں جن گن من کی خوشبو گھول جاتی ہیں
لہو سینچا ہے اس مٹی میں کچھ ایسا شہیدوں نے
کہ فصلیں سرفروشی کی وطن میں لہلہاتی ہیں
انیس شاہ
اپنے خوابوں کی چادر بچھاتی رہی
تم نہ آئے مگر رات جاتی رہی
کیرتی پردیپ
کبھی دو وقت کی روٹی نہیں ہم کو کھلاتے ہیں
ہماری آنکھ کے تارے ہمیں آنکھیں دکھاتے ہیں
ریکھا کاپسے
پالا تو ایک سا ہی تھا اس دل نے پھر بھلا
کیوں غم مری خوشی سے سیانے نکل گئے
پرملا کرن
کون کہتا ہے گھر میں رہتا ہوں
ہر گھڑی سفر میں رہتا ہوں
مدن تنہائی
بچھڑ کتنے گئے ہیں کون جانے
مگر اک شخص تنہا کر گیا تھا
دیو بلورے
مر چکا ہے ضمیر لوگوں کا
بات کرتی ہے لاش لوگوں کی
راج گرجر
زمانے میں وہ اپنے آپ کو کیا ہی بنا لے گا
کہ جو اس پل میں پوری آتما سے ہو نہیں سکتا
پردھیومن ہریالے
تم سے نظر ہٹی تو یہ معلوم ہو گیا
کتنوں کو حسن تم سے بھی اچھا دیا گیا
ہمانشو شرما
پروگرام کی نظامت کے فرائض ہمانشو شرما نے کی۔ پروگرام کے آخر میں ضلع کوآرڈینیٹر سوربھ یادو نے انجام دیے اور پروگرام کے آخر میں انھوں نے تمام مہمانوں، تخلیق کاروں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔