پسماندہ میں تو بس ایک ہی دو لیڈر ہوتے ہیں
ویسے پسماندہ میں تو بس بریکر ہی بریکر ہوتے ہیں
(نا معلوم)
برسوں سے سماجی، تعلیمی، معاشی اور سیاسی محرومیوں کا شکار پسماندہ طبقہ ملک کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ ان محرومیوں کی ایک بڑی وجہ ان طبقات کی اندرونی تقسیم(کھینچ تان) ہے۔ برادری، ذات، مسلک، علاقہ — ان تمام بنیادوں پر ہم سب پسماندہ اس قدر بٹے ہوئے ہیں کہ ہمارا اجتماعی دکھ بھی بکھرا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہی وہ بکھرا پن ہے جو ہماری تحریکوں کی کمزوری بن چکا ہے۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ جب بھی کسی قوم، طبقے یا تحریک نے کامیابی حاصل کی، اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ اعلیٰ تعلیم، سیاسی شعور اور اتحاد ہی تھا۔ اتحاد وہ طاقت ہے جو کمزوروں کو مضبوط، خاموشوں کو گویا، اور پچھڑوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ لیکن افسوس کہ پسماندہ طبقہ، باوجود تعداد اور صلاحیت کے، ان تین نعمتوں سے محروم ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پسماندہ طبقہ تعداد میں تو اکثریت رکھتا ہے، لیکن اقتدار، پالیسی سازی اور وسائل کی تقسیم میں کہیں نظر نہیں آتا۔ یہ طبقہ نہ صرف دوسروں کے ظلم و استحصال کا شکار رہا ہے، بلکہ اندرونی تضادات اور قیادت کی عدم موجودگی نے بھی اس کے زخموں کو گہرا کیا ہے۔ ہر برادری اپنی لڑائی الگ لڑ رہی ہے، ہر تنظیم اپنا راستہ الگ چن رہی ہے۔ اس سے طاقت تقسیم ہو جاتی ہے، اور طاقت کی تقسیم ہی محرومی کا سبب بنتی ہے۔
پسماندہ قیادت کی عدم موجودگی ایک معاشرتی و سیاسی خلا کو جنم دیتی ہے جو کسی بھی قوم کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ جب پسے ہوئے یا کمزور طبقات کی درست نمائندگی کرنے والی قیادت موجود نہ ہو، تو ان کے مسائل نظرانداز ہوتے ہیں اور ان کی آوازیں دب جاتی ہیں۔ اس قیادت کی غیر موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ وہ طبقہ جو پہلے ہی معاشی، تعلیمی اور سماجی لحاظ سے پیچھے ہے، مزید محرومی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایک مضبوط اور مخلص قیادت نہ صرف ان طبقات کے مسائل کو اعلیٰ سطح پر اجاگر کرتی ہے بلکہ ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات بھی کرتی ہے۔ لہٰذا، پسماندہ طبقے کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ان کی نمائندگی کرنے والی قیادت موجود ہو، جو ان کے مسائل کو صحیح انداز میں سمجھ کر مؤثر طریقے سے حل کر سکے۔ اس سے قبل بھی مختلف موقعوں پر پسماندہ طبقات کے لئے کامن ایجنڈے کی بات کہیں جاتی رہی ہے۔ اس کامن ایجنڈے میں پسماندہ طبقات کے مسائل اور مطالبات کو ایک مشترکہ بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی ۔ یہ ایجنڈا صرف شکایتوں کی فہرست نہیں بلکہ ایک مکمل خاکہ ہے جس میں تعلیم، روزگار، مردم شماری میں شناخت، سیاسی نمائندگی، سماجی انصاف، میڈیا میں نمائندگی، اور مذہبی مساوات جیسے اہم نکات شامل ہیں۔ یہ ایجنڈا ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم اپنے مطالبات کو ایک زبان میں، ایک رخ میں، اور ایک آواز میں اٹھائیں، تو کوئی طاقت ہمیں نظر انداز نہیں کر سکتی۔ لیکن شرط یہی ہے کہ ہم متحد ہوں، ذات یا برادری کی تفریق سے بلند ہو کر اجتماعی بھلائی کو ترجیح دیں۔ اگر متحد ہوکر کوئی کامن ایجنڈا نہیں بنایا تو پسماندہ طبقہ ہمیشہ پسماندگی کا شکار ہی رہے گا۔جس طرح۱۹۵۰؍کا صدارتی حکم (Presidential Order) بھارت کے آئین کے تحت جاری کیا گیا ایک اہم حکم نامہ تھا، جس کا مقصد پسماندہ طبقات، خاص طور پر درج فہرست ذاتوں (Scheduled Castes) اور درج فہرست قبائل (Scheduled Tribes) کو سماجی، تعلیمی اور معاشی ترقی کے مواقع فراہم کرنا تھا۔ اس حکم کے تحت صرف ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو درج فہرست ذاتوں کی سہولیات کا اہل قرار دیا گیا تھا، جنہیں بعد میں سکھ (1956) اور بدھ (1990) مذاہب میں بھی توسیع دی گئی، لیکن مسلمان اور عیسائی پسماندہ طبقات کو اس سے خارج رکھا گیا۔ اس فیصلے نے مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو جنم دیا۔یہ حکم نامہ بھارت میں پسماندہ طبقات کے حقوق اور مساوات کے سلسلے میں ایک طویل بحث اور جدوجہد کی بنیاد بنا، جس کا اثر آج تک نظر آتا ہے اور آج تک یہ آئینی تفریق (Constitution discrimination) پسماندہ مسلمانوں کے ساتھ جاری ہے۔ یہ آئین کی خلا ف ورزی ہے اور بھارت کے آئین پر حملہ ہے۔
مہاتما گاندھی کی جان بچانے والے پسماندہ رہنما بطخ میاں انصاری اس امتیاز کی واضح مثال ہیں جنہیں اس وقت کے صدر جمہوریہ کے گئے وعدہ سے آج تک محروم رکھا گیا ۔وعدہ میں ۳۵؍ بیگھہ جس زمین کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا اسے آج تک کی سرکاریں پورا نہیں کر سکیں اور ان کے خاندان والے مزدوری کرنے کو مجبور ہیں ۔آج تک انصاف کی گہار لگار ہے ہیں اور آج تک انصاف نہیں ملا نیز تمام نام نہاد پسماندہ لیڈر اپنی تجوریاں بھرتے رہے اور محض اپنی پارٹی کے غلام بنے رہے۔ صرف جگہ جگہ تنظمیں قائم کرکے بڑے بڑے جلسے کرکے یہ کہتے رہنا کہ ہمیں متحد ہونا چاہئے کافی نہیں۔ اتحاد ایک مسلسل عمل ہے، ایک طرزِ فکر ہے۔ اس کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے، اختلافات کو برداشت کرنا پڑتا ہے، اور ایک بڑی کامیابی کو ذہن میں رکھنا ہوتا ہے تب کہیں جاکر ایک لمبی جدوجہد کے بعد کامیابی ملتی ہے۔ اگر کوئی ایک برادری یا تنظیم آگے بڑھتی ہے، تو دوسروں کو اسے سہارا دینا ہوگا نہ کہ تنقید کا نشانہ بنانا۔ قیادت کو ذاتی مفادات کے بجائے اجتماعی فلاح کو ترجیح دینی ہوگی۔ نئی نسل کو جذبات سے زیادہ شعور کے ساتھ کام لینا ہوگا، اور سوشل میڈیا کو صرف احتجاج کا ذریعہ نہیں بلکہ تعلیم و تربیت کا ہتھیار بنانا ہوگا۔بھارت سب کا ہے بھارت کسی ایک کا نہیں، سب نے اپنا لہو دے کر اسے سینچا ہے۔ ہمیں بھارت کے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا ہے۔ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے، اور جو قومیں یا طبقات وقت کی آواز کو نہیں پہچانتے، تاریخ انہیں پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ اگر پسماندہ طبقہ اب بھی نہیں جاگا، اگر اس نے اب بھی اپنی تقسیم کو ختم نہ کیا، تو آنے والی نسلیں بھی انہی زخموں کے ساتھ جئیں گی۔اسلئے کہ کامیابی صرف ان کا مقدر بنتی ہے جو متحد ہوتے ہیں۔ اور جب تک پسماندہ تحریک میں اتحاد نہیں ہوگا، کامیابی کا خواب محض ایک خواب ہی رہے گا۔ اب وقت آگیا ہے تمام پسماندہ تنظیمیں آپس کی نااتفاقیاں مٹا کر اتفاق و اتحاد پیدا کریں۔ اپنا ایک مشترکہ ایجنڈا بنائیں۔ اپنے اندر منووادی اور پونجی وادی عناصر سے لڑنے کی طاقت پیدا کریں۔ اپنی قیادت کھڑی کریں اور سب سے اہم پورے معاشرہ کا بچہ بچہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بن جائے اس کی فکر، کوشش اورجدوجہد کریں تبھی کامیابی پسماندہ طبقوں کا مقدر بنے گی۔