نئی دہلی یکم مئی: لوک سبھا انتخابات کے دو مرحلوں کی ووٹنگ ہو چکی ہے اور اب تیسرے مرحلے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ پہلے اور دوسرے مرحلوں میں عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے بی جے پی لیڈران اب اس الیکشن کو مودی بمقابلہ راہل گاندھی بنانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اپنے امیدوار یا اس کی سماجی خدمات پر ووٹ مانگنے کے بجائے براہ راست مودی کے نام پر ووٹ مانگنے لگے ہیں۔ مگر مودی کے نام پر ووٹ مانگنے کے دوران اب عوام اعلانیہ طور پر ملک کی زمام کار راہل گاندھی کے ہاتھوں میں دینے کا اعلان کرنے لگی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ مہاراشٹر کے شہر کولہاپور میں دیکھنے کو ملا ہے۔ یہاں بی جے پی کی ایک تقریب کے دوران مودی کی جگہ راہل کی حمایت میں آواز بلند ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ اس واقعہ سے نہ صرف یہ واضح ہو رہا کہ عوام میں راہل گاندھی کی مقبولیت کس حد تک بڑھی ہوئی ہے بلکہ یہ بات بھی سامنے آ جاتی ہے کہ اب لوگ کھل کر مودی کو مسترد کرنے لگے ہیں۔ معاملہ کولہاپور کے کاگل کا ہے جہاں آج (یکم مئی) بی جے پی کی اتحادی پارٹی شیوسینا (ایکناتھ شندے) کے امیدوار سنجے منڈلک کی حمایت میں انتخابی جلسہ کا انعقاد ہوا۔ اس جلسے میں کاگل کے رکن اسمبلی و ریاستی کابینہ کے وزیر حسن مشرف، رکن پارلیمنٹ دھننجے مہاڈک، بی جے پی لیڈر اکھلیش سنگھ گھاڈگے اور ان کی بہن شومیکا مہاڈک خاص طور سے شریک ہوئیں۔
شومیکا مہاڈک نے دورانِ خطاب وہاں پر موجود لوگوں سے یہ پوچھا کہ آپ اس ملک کی باگ ڈور نریندر مودی کے ہاتھوں میں دینا چاہتے ہیں یا راہل گاندھی کے؟ اس سوال پر مجع میں سے نہایت بلند آواز آئی ’راہل گاندھی کے ہاتھوں میں‘۔ یہ سن کر اسٹیج پر موجود لیڈران کی ہنسی چھوٹ گئی، اور وہ حیران بھی ہوئے۔ اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شومیکا مہاڈک کے ذریعے پوچھے گئے سوال کا جواب ’راہل گاندھی‘ ملنے پر نہ صرف شومیکا مہاڈک بلکہ اسٹیج پر بیٹھے ہوئے دیگر مقررین پر بھی خفت طاری ہو جاتی ہے اور وہ اسے چھپانے کے لیے ہنسنے لگتے ہیں۔ اس واقعے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عوام میں راہل گاندھی کی کتنی مقبولیت ہے۔ یہ پورا جلسہ بی جے پی امیدوار کے حق میں تھا مگر یہاں پر بھی لوگوں پر راہل گاندھی کا جادو سر چڑھ کر بولتا نظر آیا۔