ممبئی25مئی: مہاراشٹر کے پیاز کاشتکار اس وقت شدید بحران کا شکار ہیں۔ ایک طرف بازار میں قیمتیں مسلسل گرتی جا رہی ہیں، تو دوسری طرف مئی کے آغاز سے ہونے والی بے موسمی بارش نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ ہزاروں ایکڑ پر کھڑی یا کٹی ہوئی فصلیں بارش کی نذر ہو چکی ہیں، جس سے انہیں بھاری مالی نقصان کا سامنا ہے۔ مہاراشٹر اسٹیٹ پیاز پروڈیوسر فارمرز ایسوسی ایشن کے بانی صدر، بھرت دِگھولے کے مطابق، پیاز کے اہم پیداواری اضلاع جیسے ناسک، دھولیہ، پونے، اورنگ آباد، بیڈ، جالنا، احمد نگر اور سولاپور میں چھ مئی سے شدید بارش ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے کئی علاقوں میں پیاز کی تیار فصلیں بھیگ گئیں جبکہ کئی جگہوں پر کھڑی فصلوں کو بھی نقصان پہنچا۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ سیزن میں پیاز کی فی کوئنٹل قیمت 1,150 روپے تک رہ گئی ہے، جو کہ پیداوار کی لاگت کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ ان کے مطابق، جن کسانوں نے مارچ سے قبل فصل کاٹ لی تھی، انہیں کچھ بہتر قیمت ملی لیکن اپریل اور مئی میں فصل کاٹنے والے کسان شدید نقصان میں ہیں کیونکہ شدید گرمی کے بعد اب بارش نے پیاز کو خراب کر دیا ہے۔ بہت سے کسانوں کے پاس فصل ذخیرہ کرنے کی مناسب سہولت نہیں ہے، اس لیے وہ پیاز کو کھیت میں ہی محفوظ کرتے ہیں لیکن بارش نے ان کا یہ ذخیرہ بھی تباہ کر دیا ہے۔ اس صورتحال میں کسان نہ تو فصل بیچ پا رہے ہیں اور نہ ہی ذخیرہ کر کے قیمت بڑھنے کا انتظار کر سکتے ہیں۔ دگھولے نے مزید بتایا کہ پیاز کی کاشت کا رقبہ ہر سال بدلتا رہا ہے۔
2022-23 میں یہ رقبہ 5.53 لاکھ ہیکٹر تھا، جو 2023-24 میں کم ہو کر 4.64 لاکھ ہیکٹر رہ گیا لیکن 2024-25 میں اس میں اضافہ ہو کر 6.51 لاکھ ہیکٹر تک پہنچ گیا ہے۔ ناسک ضلع اس وقت ملک میں سب سے بڑا پیاز پیدا کرنے والا علاقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اگرچہ کئی بار پیاز کی برآمدات پر پابندیاں لگائیں، مگر اس کے باوجود مہاراشٹر نے اچھی خاصی مقدار میں پیاز برآمد کی ہے، جس سے زرمبادلہ حاصل ہوا۔ صرف 2022-23 میں ہی ریاست نے 25.25 لاکھ ٹن پیاز برآمد کی، جس سے 4,522 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔ دگھولے کا مطالبہ ہے کہ مرکزی حکومت ملک میں پیاز کی سالانہ ضرورت کا تخمینہ عوامی سطح پر جاری کرے تاکہ کاشتکار اسی لحاظ سے اپنی منصوبہ بندی کر سکیں اور اضافی پیداوار کو برآمد کیا جا سکے۔ ان کے مطابق، جب پیاز کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو حکومت برآمدات پر پابندی لگا کر قیمتیں کنٹرول کرتی ہے، مگر اس کا خمیازہ کسانوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ تمام صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ حکومت نہ صرف کاشتکاروں کے لیے مناسب امدادی قیمت طے کرے بلکہ انہیں قدرتی آفات سے تحفظ دینے کے لیے بہتر بیمہ پالیسی اور ذخیرہ سہولت بھی فراہم کرے۔