بھوپال:28مارچ:آج موتی مسجد بھوپال میں نماز جمعہ سے قبل مصلیوں کی کثیر تعداد سے اپنے خطاب میں قاضی شہر حضرت مولانا سید مشتاق علی ندوی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جہاں بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں وہاں اپنے نائب و خلیفہ کے لئے اعداد و شمار اور کام کاج کیلئے دن رات بھی تخلیق فرمائے۔ بعض دنوں کو دنوں پر اور بعض راتوں کو راتوں پر فضیلت بخشی۔ راتوں میں سے نزول قرآن و آمد صاحب قرآن کی راتوں کو فضیلت و بزرگی عطا فرمائی اور دنوں میں یوم تخلیق آدم علیہ السلام ’’جمعہ‘‘ کو سرداری و شرف عنایت فرمایا۔ جمعہ کو ”سید الایام” بھی کہا جاتا ہے اور اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس دن ابوالبشر سیدنا آدم علیہ السلام کے اجزائے تخلیق جمع کئے گئے جب کہ دوسرا قول یہ ہے کہ اس دن زمانہ جاہلیت میں قریش قصی بن کلاب کے ساتھ جمع ہوتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں جمعہ کو ”یوم العروبہ” کہا جاتا تھا۔ اسلام میں جمعہ کے دن کا بڑا مقام اور مرتبہ ہے۔یہ ہفتے کے تمام دنوں کا سردار ہے۔ جمعہ کے دن کا خصوصی امتیاز اور شرف صرف امت محمدیہ کو عطا کیا گیا اور کسی امت کو نہیں بخشا گیا۔ : رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ” سب سے بڑا اور افضل دن جس میں سورج طلوع ہوا وہ جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن آدم کی تخلیق ہوئی اور اسی دن وہ جنت میں داخل کئے گئے۔”جب یہ معلوم ہو گیا کہ جمعہ کا دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خاص مقام اور فضیلت رکھتا ہے تو ایک مسلمان کے شایان شان یہ ہے کہ وہ جمعہ کیلئے عمل اور بامقصد منصوبہ بندی پر کار بند رہے تاکہ وہ اس کے ظاہری، باطنی، انفرادی اور اجتماعی برکات و آداب سے بھرپور مستفید ہو سکے۔
قاضی صاحب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن کے دو آداب اور فضائل مقرر فرمائے ہیں۔ ان میں ایک ادب یہ ہے کہ جمعہ کے دن مسلمانوں کو غسل کی ترغیب دی گئی ہے، نظافت اور خوشبو کے استعمال کی طرف مائل کیا گیا ہے اور یہ کہ لوگوں کو صاف ستھرے لباس میں نمودار ہونے کی تلقین کی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ” جب جمعہ کا دن ہو تو آدمی کو چاہئے کہ غسل کرے اور پھر اس کے پاس جو سب سے اچھے کپڑے ہوں وہ زیب تن کرے، پھر نماز کے لئے جائے اور یہ آداب ملحوظ رکھے کہ وہ آدمیوں کو ہٹا کر ان کے درمیان نہ بیٹھے پھر امام کو غور سے سنے تو اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔”اسی طرح اسلام نے مسلمانوں کو غسل کرنے کے ذریعے حفظان صحت کی طرف مائل کیا ہے اور ہر وقت خوش نما اور باوقار رہنے کو شعار بنانے کی ترغیب دی ہے، خاص کر مساجد، محافل اور تقریبات میں صفائی ستھرائی پر بہت زور دیا ہے۔ یہ تو عام جمعۃالمبارک کی فضیلتیں ہیں تو رمضان المبارک کے جمعۃ المبارک کی کیا شان ہو گی اور پھر رمضان المبارک کا جمعۃ الوداع تو تمام پر فضیلت و برتری پا جاتا ہے۔
رمضان المبارک کا آخری جمعہ اس لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اب ان ایام کے الوداع ہونے کا وقت آگیا جن میں مسلمانوں کے لئے عبادات کا ثواب کئی گنا بڑھا دیا گیا تھا۔ اس اعتبار سے رمضان المبارک کے جمعہ کا اجر و ثواب بھی بہت زیادہ ہے۔ پھر اس جمعۃ الوداع کا معاملہ تو یہ ہے کہ مومن سوچتا ہے کہ اب آئندہ سال تک ایسی فضیلت و برکت والا جمعہ نہیں آئے گا۔
یہی وجہ ہے کہ عامۃ المسلمین جمعۃ الوداع کو بڑے اہتمام اور ذوق و شوق سے ادا کرتے ہیں۔ ملک و قوم کی بھلائی اور ترقی کے لئے خصوصی دعائیں مانگتے ہیں اور اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں کہ وہ اپنے فضل خاص اور رحمت سے ماہ رمضان کی عبادات قبول فرمائے اور ان کو اجر و ثواب سے نوازے۔
آج دنیا کی ہر قوم اپنی پوری قوت اس مقصد کے لئے صرف کر رہی ہے کہ ان کے افراد میں اتحاد عمل پیدا ہو۔ ان کی سوچ میں یگانگت اور ان کی حرکات میں ہم آہنگی ہو۔ وہ بیک وقت ایک آواز پر بیٹھ جائیں اور ایک آواز پر سب کے سب کھڑے ہو جائیں۔
اندازہ کریں کہ جس قوم میں یہ سب باتیں ان کے دین کی برکت سے خود بخود موجود ہوں اور وہ ان سے خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ کر ے، وقت آنے پر ان سے ملی فوائد حاصل نہ کر سکے تو اس قوم کو بے روح نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ مسلمانوں کے اندر ان کی حرکات و سکنات میں یہ ہم آہنگی اور اطاعت امیر کی سپرٹ اسی لئے پیدا کی گئی ہے کہ ان کے قلوب و اذہان مزکیٰ ہوں، ان کی روح میں بالیدگی پیدا ہو، وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے احکام اپنے سامنے رکھیں۔ ان کا جھکنا اسی کے لئے ہو، ان کا اٹھنا اسی کے لئے ہو، ان کی قوتیں کمزوروں کی حفاظت کے لئے ہوں اور ان کی توانائیاں ضعیفوں کے حقوق کی نگہداشت میں کام آئیں۔
آپ اندازہ لگائیں کہ رمضان المبارک کا یہ آخری جمعہ فوائد ملی کے اعتبار سے اپنے اندر کس قدر اہمیت رکھتا ہے۔ رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی مسلمانوں میں جسمانی اور روحانی انقلاب پیدا کرنے کی مشق کا آغاز ہو جاتا ہے۔ انہیں خالص مجاہدانہ زندگی کا خوگر بنانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ ان کی نگاہوں کو خیانتوں سے اور ان کے دلوں کو کدورتوں سے پاک کرنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔