خان صاحب چھٹی ختم ہونے کے بعد بیوی اور انگلینڈ میں زیرے تعلیم چھوٹی بیٹی کے ہمراہ انگلینڈ واپسی کے واسطےایر پورٹ کے لئے روانہ ہوئے تھے ۔ بہو بیٹا انھیں چھوڑنے کے لئے ایرپورٹ ساتھ جا رہے تھے ۔ ٹرافک جام ہونے کی وجہ سے وہ ایر پورٹ پہنچنے میں لیٹ ہوگٔے اور انھیں بورڈنگ کرنے کی اجازت نہیں ملی ۔ وہ مایوس ہو کر باہر آ بیٹے کو فون کرکے واپس بلایا ۔ بیٹا واپس آیا تو دوڑ کر ماں باپ اور بہن سے لپٹ گیا ۔۔
ابا امی اچھا ہوا آپ کی فلائٹ چھوٹ گئی ۔ ‘ ایسا کیوں کہہ رہے ہو ۔ لاکھوں روپے کی ٹکٹیں ضائع ہو گئ ہے ۔
روپیوں کو مارو گولی ۔۔۔ ماموں نے مجھے فون کرکے بتایا کے انگلینڈ جا رہی وہ فلائٹ ٹیک آف کے تیس سیکنڈ بعد حادثے کا شکار ہو گئی ہے ۔ اللہ تیرا شکر ہے ۔ کہتے ہوئے خان صاحب سجدہ ریز ہوگئے ۔ گھر پہنچے تو ملنے کے لئے آنے والوں کا تانتا لگ گیا ۔ ہر کوئی انھیں نئ زندگی کی مبارکباد دے رہا تھا ۔ تو کوئی مٹھائی کھلا رہا تھا کوئی صدقہ ادا کر اپنی محبت کا اظہار کر رہا تھا ۔ بہو بیٹا ماں باپ کے قدموں میں بچھے جارہے تھے ۔ ہر آنے والے کا استقبال کر رہے تھے ۔ چا ناشتے کا انتظام کر رہے تھے ۔ شام ہوتے ہوتے ایر لائن نے اعلان کردیا کہ حادثے میں مرنے والے ہر شخص کے بدلے ان کے ورثہ کو ایک ایک کروڑ روپے دیئے جائے گے ۔ یہ سنتے ہی بہو بیٹے کا چہرہ اتر گیا ۔ ملنے والے چلے گئے ۔ تو سب نے ایک ساتھ کھانا کھایا ۔ بہو بیٹے کو خاموش دیکھ خان صاحب نے ٹوکا ، کیا بات تم دونوں خاموش کیوں ہو گئے ہو ۔ ،؟ بیگم خان بیچ میں بول پڑی بیچارے تھک گئیے ہوں گے ۔ صبح سے اٹھ کر بھاگ دوڑ کر رہے ہیں ۔ دوپہر سے آنے جانے والوں کا خیال رکھ رہے ہیں ۔
بہو نے ساس کی تائید کی ۔ امی صحیح کہہ رہی ہیں ۔ اب ہم سب کو آرام کرنا چاہیے ۔ کہہ کر بہو اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ تھوڑی دیر بعد شوہر کمرے میں آیا اور بستر پر لیٹ کر پوچھا ۔ کیا بات ہے بہت پریشان لگ رہی ہو ۔؟ کیا سوچ رہی ہو ۔؟ وہ ہی جو آپ سوچ رہے ہو ۔ میں سوچ رہا ہوں اگر ٹرافک جام نہیں ہوا ہوتا تو ہمیں بھی تین کروڑ ملتے ۔
ڈاکٹر رونق جمال (درگ چھتیس گڑھ)