اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
بھوپال:24؍مئی: اردو غزل میں محبت کے ترانے گانے والے، اُردو غزل کو شگفتہ لہجہ دینے والے، فارسی کی مشکل ترکیبوں سے باہر نکال کر خالص اُردو میں شاعری کرنے والے وہ کوئی اور نہیں بلکہ بلبل ہند،فصیح الملک نواب مرزا داغؔ دہلوی ہیں۔ آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ان سے پہلے غزل ہجر کی تڑپ سے یا پھر تخیل کی بے لگام اڑانوں سے پہچانی جاتی تھی لیکن داغ دہلوی کا اسلوب پورے بھارت میں اس قدر مقبول ہوا کہ ہزاروں لوگوں نے اس کی پیروی کی اور ان کے شاگرد بن گئے۔زبان کو اس کی موجودہ شکل میں ہم تک پہنچانے کا سہرا بھی داغؔ کے سر ہے۔داغؔ ایسے شاعر اور فنکار ہیں جو اپنے فکر و فن،شعر و سخن اور زبان و ادب کی تاریخی خدمات کے لئے کبھی فراموش نہیں کئے جائیں گے۔آج ۲۵؍مئی کو اُن کے یوم پیدائش کے موقع پر ہم تمام بھارتیہ اُنہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
ان کی اس خدمت کی ضرور قدر کرنی چاہیے کہ انہوں نے سخت اور مشکل الفاظ ترک کیے اور سیدھے الفاظ استعمال کیے۔ جس سے کلام میں خوبصورتی اور فصاحت مزید بڑھ گئی ہے۔داغؔ دہلوی کے طرز بیان میں جو فصاحت و بلاغت،جو نکھار، جو نیا پن اور جو البیلا پن ملتا ہے وہ بہت کم غزل کاروں کے حصے میں آیا ہے۔
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اُردو زبان آتے آتے
داغؔ دہلوی کونظام دکن کی استادی کا شرف حاصل ہوا۔ دبیر الدولہ۔ فصیح الملک، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب ملے۔داغ دہلوی کے جتنے شاگرد ہوئے اتنے کسی بھی شاعر کو نہ مل سکے۔ ان کے شاگردپورے بھارت میں پھیلے ہوئے تھے۔اگر یہ کہا جائے کہ اُردو زبان کے فروغ میں داغ دہلویؔ کا اہم کردار ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔
اگر ہم اس ملک میں امن چاہتے ہیں ،بھائی چارے کا ماحول چاہتے ہیں تو ہمیں اُردو کے لئے محنتیں کرنا ہوں گی اسلئے کہ ایک اُردو زبان ہی ہے جو ہمیشہ سے لوگوں کو آپس میں جوڑکر رکھی ہوئی ہے اور آگے بھی اُردو زبان وتہذیب ہی بھارت کو جوڑکر رکھ سکتی ہے۔آج ملک ترقی کی راہ پر پیچھے کیوں ہیں؟ اسلئے کہ آج زبان پر بھی سیاست ہو رہی ہے ،اگر ہم بڑوں- بزرگوں کو دیکھیں ،ان کی تاریخ پڑھیں تو یقینا ہمیں معلوم ہوگا کہ اس دور میں اُردو کسی خاص طبقے کے ساتھ نہیں جوڑی جاتی تھی بلکہ ہر ایک اُردو بولتا تھا اور یہی ہمارے ملک بھارت کا حسن تھا لیکن افسوس کہ موجودہ حکومتیں اس پیاری زبان کے ساتھ سوتیلہ سلوک کر رہی ہیں اور کہیں نہ کہیں ہم بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔
ہمیں چاہئے کہ آنے والی نسلوں کو اُردو زبان سکھانے کے لئے کوشاں ہوجائیں خود بھی اُردو پڑھیں ،اُردو لکھیں اور اُردو بولیں نیز اپنے بچوں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔ اُردو زبان وتہذیب کے فروغ کیلئے ہر وہ کام کریںجس سے اُردو پوری دنیا تک پہنچے اور اُردو کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
بھارت ہے اس کا مسکن ، بھارت ہے اس کا گلشن
بھارت کی ہے دُلاری اُردو زبان ہماری