بھوپال 21؍ مئی (شہری نمائندہ) دار العلوم تاج المساجد بھوپال میں آج بتاریخ ۲۱؍مئی بروز اتوار ۲۰۲۳ء؁ ایک عظیم الشان اجلاس زیرِ صدارت حضرت مولانا پروفیسر محمد حسان خاں صاحب منعقد ہوا جس کا مقصد دار العلوم میں سید سلیمان ندوی اکیڈمی کا افتتاح اور دو روزہ سیمینار بتاریخ ۲۱؍ و ۲۲؍مئی بعنوان ’’علامہ سید سلیمان ندوی حیات وخدمات‘‘تھا۔اجلاس کے مہمانِ خصوصی دار العلوم ندوۃ العلماء کے ناظم حضرت مولانا سید بلال عبد الحی حسنی ندوی صاحب تھے ، علماء بھوپال کی طرف سے نمائندگی شہر قاضی مولانا سید مشتاق علی ندوی صاحب نے کی۔
صدر جلسہ نے اپنی صدارتی کلمات میں سید صاحب کے بھوپال سے والہانہ تعلق پر روشنی ڈالی اور سید صاحب اور مولانا محمد عمران خاں ندوی ازہری کے درمیان مضبوط رشتے کے بارے میں تفصیل سے بتایا، مہمانِ خصوصی حضرت مولانا سید بلال عبد الحی حسنی ندوی صاحب نے اپنے پر اثر خطاب میں فرمایا کہ سید صاحب نہ صرف مؤرخ و محقق تھے جیسا کہ عوام الناس میں مشہور ہے بلکہ اپنے زمانے کے جید عالم اور شرعی و قرآنی علوم کے سب سے بڑے رمز شناس تھے جس کا اندازہ سیرت النبی کے مطالعہ سے ہوتا ہے اور یہ صرف سید صاحب کا ہی کمال ہے کہ انہوں نے سیرت کو شریعت کی شکل اور شریعت کو سیرت کی شکل میں پیش کیا حالانکہ اس سے پہلے مغازی کا ذکر کرنا ہی سیرت سمجھا جاتا تھا ،مزید ان نے اپنی دلی تمنا بھی ظاہر فرمائی کہ سیرت کی دنیا کا کوئی شہ سوار اٹھے اور اس عظیم الشان کتاب کو عربی میں منتقل کر دے، نیز انہوں نے اپنے خطاب میں اس بات پر بھی بہت زور ڈالا کہ طلبۂ مدارس اپنی طالبعلمانہ زندگی میں ایک بار اس کتاب کی تمام جلدوں کا ضرور مطالعہ کریں جس سے ان کو فہمِ دین اور فہمِ شریعت کا مغز حاصل ہو جائے گا،اجلاس میں تشریف لائے ہوئے ایک اور معزز مہمان مولانا پروفیسر محسن عثمانی صاحب ندوی نے اپنے خطاب میں ۱۹۸۵ء؁ میں دار العلوم تاج المساجد کے احاطے میں سید صاحب صدی کے موقع پر ہونے والے عظیم الشان سیمینار کا ذکر کیا جو مولانا عمران خان ندوی ازہری ؒ کی صدارت میں منعقد ہوا تھا اس موقع پر انہوں نے مذکورہ سیمینار کے کنوینر اور اس کی روداد کو ’’مطالعۂ سلیمانیـ‘‘ کے نام سے جمع کرنے والے مولانا پروفیسر مسعود الرحمن خان صاحب ندوی ازہری کو بھی یاد فرمایا جو اپنی شدید علالت کی وجہ سے اس اجلاس میں شرکت سے معذور تھے اور ان کی بحالی ٔ صحت کے لئے دعا فرمائی،اس اجلاس میں سید صاحب ؒ کے فرزند حال مقیم ڈربن افریقہ مولانا سید سلمان ندوی صاحب کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا لیکن وہ اپنی گوناگوں مصروفیات اور خرابی ٔ صحت کی بنیاد پر بذات خود شریک نہ ہو سکے لیکن اہتمام کے ساتھ اپنا تحریری پیغام آنلائن اس اجلاس کے لئے ارسال کیا جس کو ناظم جلسہ مولانا سید شرافت علی صاحب ندوی نے تمام مہمانوں کو پڑھ کر سنایا اس پیغام میں موصوف نے دار العلوم میں قائم ہونے والی سید سلیمان ندوی اکیڈمی کے محرکین و مؤیدین کو تشجیعی کلمات سے نوازا اور اخلاص و للہیت و تعلق مع اللہ کے ساتھ جمے رہنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری آپ لوگوں نے اپنے سر لی ہے تو اس کو سارے اصول وضوابط کے ساتھ انجام دینے کی کوشش بھی کریں۔
دہلی سے آئے ہوئے معزز مہمان پروفیسر خالد محمود صاحب نے بھی اپنے خطاب میں اس اقدام کو سراہا اور دار المصنفین ، بھوپال اور سید صاحب سے اپنی نسبت وتعلق کا اظہار فرمایا ،علماء بھوپال کے نمائندہ قاضی شہر بھوپال نے اپنے خطاب میں اس اکیڈمی کے لئے نیک تاثرات کا اظہار فرمایا اور اس کے قیام و بقاکی دعا بھی کی، دار المصنفین سے تشریف لائے ہوئے مہمان حضرت مولانا عمیر الصدیق ندوی دریابادی نے اپنے کلیدی خطاب میں سید صاحب ؒ کے زندگی کے تمام ہی گوشوں پر روشنی ڈالی نیز بھوپال سے سید صاحب کے قلبی تعلق کا تفصیلی اظہار کیا، ساتھ ہی ان کے فکری اعتدال وتوازن اور جامعیت کا بھی ذکر کیا اور طلبہ کو نصیحت فرمائی کہ انحراف و غلو ، تشدد و تعصب سے بچتے ہوئے سید صاحب کی طرح اعتدال فکر اور توازن عمل پر قائم رہیں، نائب مہتمم دار العلوم تاج المساجد بھوپال و کنوینر سمینار مولانا ڈاکٹر اطہر حبیب صاحب ندوی نے اپنے استقبالیہ کلمات میں تمام ہی مہمانان کا شکریہ ادا کیا بالخصوص مہمانِ خصوصی ناظم ندوہ کا کہ آپ نے شوال کا مہینہ اور طلبہ کے داخلوں میں مصروفیات کے باوجود دار العلوم کی دعوت پر لبیک کہا جو ہمارے لئے بہت ہی فخر ومسرت کا موقع ہے ، اور سید صاحب پر قائم ہونے والی اکیڈمی کے مقاصد اور ضرورت پر اظہارِ خیال کیا ، اخیر میں مہمانِ خصوصی ناظمِ ندوہ کے دستِ مبارک سے سلیمان اکیڈمی کے سنگ بنیاد کی تقریب عمل میں آئی اور صدر صاحب کی دعا پر اس اجلاس کا اختتام ہوا۔
اجلاس میں نظامت کے فرائض دار العلوم کے مؤقر استادمولانا سید شرافت علی صاحب ندوی بحسن و خوبی انجام دیے، جلسے کا آغاز متعلم دار العلوم محمد سلمان ولد محمد شریف کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اور محمد فیصل ولد پیر محمد صاحب نے نعت رسول پیش کی۔