نئی دہلی 21اپریل: بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے ان دنوں سرخیوں میں ہیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ اور سی جے آئی کے ساتھ ساتھ سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کے خلاف بھی متنازعہ بیان دیا ہے۔ نشی کانت دوبے کے متنازعہ بیان کے بعد سیاسی اور سماجی حلقوں نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ پیر (21 اپریل) کو سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی نے بی جے پی لیڈر کے متنازعہ بیان پر جوابی حملہ کیا ہے۔ قریشی نے کہا کہ وہ ہندوستان کے اس نظریے پر یقین رکھتے ہیں جہاں کسی انسان کو اس کی قابلیت اور کام سے پہچانا جاتا ہے نہ کہ مذہب کی بنیاد پر۔ واضح ہو کہ ایس وائی قریشی جولائی 2010 سے جون 2012 تک ہندوستان کے چیف الیکشن کمشنر تھے۔ قریشی نے اس حوالے سے مزید کہا کہ میں نے پوری وفاداری کے ساتھ الیکشن کمیشن میں کام کیا ہے اور میرا آئی اے ایس کیریئر بھی کافی تسلی بخش رہا ہے۔ لیکن کچھ لوگ اپنی نفرت انگیز سیاست کے لیے مذہب کا استعمال کرتے ہیں۔ ایس وائی قریشی نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے آگے کہا کہ ہندوستان ہمیشہ آئین اور اس کے اصولوں کے ساتھ کھڑا رہا ہے اور آگے بھی کھڑا رہے گا۔ دہلی ایڈمنسٹریشن آفیسرز فورم کے صدر مہیش اور سابق گورنر گوپال کشن گاندھی نے بھی قریشی کی حمایت کی ہے۔ مہیش نے کہا کہ ’’قریشی نے اپنی مدت کار میں الیکشن کمیشن میں کئی اہم اصلاحات کیے۔
جیسے ووٹرس کی تعلیم اور اخراجات پر کنٹرول۔‘‘ قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں جب ایس وائی قریشی نے وقف ایکٹ کے حوالے سے حکومت کی نیت پر سوال اٹھاتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لکھا کہ ’’یہ قانون مسلمانوں کی زمین پر قبضہ کرنے کا منصوبہ معلوم پڑتا ہے۔‘‘ اس پر بی جے پی رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’قریشی الیکشن کمشنر نہیں تھے بلکہ مسلم کمشنر تھے اور ان کے مدت کار میں جھارکھنڈ میں بڑی تعداد میں بنگلہ دیشی دراندازوں کو ووٹر بنایا گیا۔‘‘ دوبے نے اسی پر بس نہیں کیا اور کہا کہ ہندوستان کی تاریخ اور ثقافت کافی پرانی ہے اور کسی ایک مذہب کی سرزمین نہیں رہی۔ ساتھ ہی انہوں نے ایس وائی قریشی پر الزام عائد کیا کہ وہ ملک کو تقسیم کرنے جیسی باتیں کرتے ہیں، جب کہ ہندوستان اب کسی اور تقسیم کو قبول نہیں کرے گا۔