بھوپال :11؍مئی :تاریخِ ہند میں سلطنتِ بھوپال ایک منفرد باب رکھتی ہے، اور اس باب کی سب سے درخشاں سطر سلطان جہاں بیگم ہیں۔ آپ نہ صرف بھوپال کی حکمراں رہیں بلکہ برصغیر کی اُن چند ممتاز خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے تعلیم، صحت اور خواتین کے حقوق جیسے شعبوں میں انقلابی کام کیے۔ آپ کا تعلق اُس شاندار سلسلے سے تھا جسے ”بھوپال کی بیگمات” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ایسی خواتین حکمراں جنہوں نے مردوں کے معاشرے میں اپنی بصیرت اور قیادت سے ایک روشن تاریخ رقم کی۔
سلطان جہاں بیگم کے دور کا بھوپال ایک ترقی یافتہ ریاست تھا۔ ہر طرف علم و تہذیب کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ اسکول، اسپتال، لائبریریاں، عورتوں کے لیے خصوصی تعلیم گاہیں اور صاف ستھری سڑکیں اُن کی دور اندیشی کا عملی ثبوت تھیں۔ آج جب ہم بھوپال کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں خستہ حال عمارتیں، ویران میدان، اور ماضی کی وہ یادگاریں دکھائی دیتی ہیں جن پر وقت کی گرد جم چکی ہے۔ اقبال میدان، صدر منزل، تاج محل بھوپال، قبرستان،ہاکی گرائونڈ، باب علی اور تاج المساجد کے آس پاس کا علاقہ—سب کچھ گویا چیخ چیخ کر ہماری غفلت کا ماتم کر رہا ہے۔بڑے تالاب کے کنارے بسی ہوئی یادیں ہو یا قدیم مساجد کی بوسیدہ دیواریں، ہر مقام ہم سے سوال کررہا ہے: کیا ہم بھوپال کی روح کو فراموش کر بیٹھے ہیں؟
آج بھوپال میں جہاں ایک طرف مہنگے ہوٹل، شاپنگ مالز اور کمرشل بلڈنگیں بن رہی ہیں، وہیں دوسری طرف سلطان جہاں بیگم کی قائم کردہ عوامی سہولیات دم توڑ رہی ہیں۔ اقبال میدان، جو کبھی نوجوانوں کی ہمت اور صحت کا نشان تھا، اب ویران در و دیوار کا منظر پیش کرتا ہے۔ تاج محل بھوپال، جو کبھی ثقافتی تقریبات اور علمی محفلوں کا مرکز رہا، اب سنّاٹے اور بے توجہی کی چادر اوڑھے کھڑا ہے۔ یہ صرف جگہیں نہیں، بلکہ ایک طرزِ فکر کی علامت تھیں ۔ جو ہمیں خود سے سوال کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔
اس سب کے باوجود ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ اہلِ بھوپال اور بالخصوص ”علیگ برادری” نے سلطان جہاں بیگم کی تعلیمی خدمات کو محض تاریخ کا ورق نہیں سمجھا، بلکہ اُن کے چھوڑے ہوئے مشن کو عملی طور پر آگے بڑھایا ہے۔ یاد رکھئے! وہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی پہلی خاتون چانسلر تھیں، جنہوں نے نہ صرف خود علم حاصل کیا بلکہ دوسروں کے لیے بھی راہیں ہموار کیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ آج اُن کی تعلیم کو لے کر جو فکر تھی اس کا تسلسل نظر آتا ہے۔ علیگ برادری نہایت عرق ریزی کے ساتھ تعلیم کے میدان میں اور خاص طور پر خواتین کی تعلیم میں اور تحقیق کے میدان میں نمایاں کارنامے سرانجام دے رہی ہے۔
خواتین کی تعلیم کے لیے جو بنیاد سلطان جہاں بیگم نے رکھی، آج اسی پر نئی عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ مختلف ادارے ، انجمنیں اور سوسائٹیز، جن میں علیگڑھ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن بھی پیش پیش ہے، نہ صرف تعلیمی سیمینار، ورکشاپس اور اسکالرشپ پروگرام منعقد کر رہے ہیں بلکہ محروم طبقات کے لیے تعلیمی راہیں آسان بنانے میں مصروفِ عمل ہیں۔ یہ سب کچھ بیگم صاحبہ کے خوابوں کو تعبیر دینے کی زندہ مثال ہے۔
غور طلب ہے کہ شاہی اوقاف بھی اب ایک نئی توانائی کے ساتھ اپنے تاریخی کردار کو نبھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ نہ صرف قبرستانوں اور مذہبی مقامات کی دیکھ بھال کر رہے ہیں بلکہ مستحق طلبہ کو وظائف دے کر اُن کی تعلیمی راہوں کو ہموار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ وہ مثبت تبدیلی ہے جو ہماری سماجی بیداری اور ورثے سے وفاداری کا مظہر ہے۔
ہمیں اس امر کا احساس ہے کہ چیلنجز اب بھی موجود ہیں — جدید تعلیمی اداروں کی کمی، لڑکیوں کے لیے محفوظ ماحول کی ضرورت، اور تعلیمی بجٹ میں اضافہ جیسے معاملات اب بھی توجہ طلب اوامر ہیں۔ مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ ہم مایوسی کے بجائے اُمید کا راستہ چن چکے ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ تعلیم صرف ڈگری کا نام نہیں بلکہ ایک ایسا شعور ہے جو قوموں کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ سلطان جہاں بیگم نے ہمیں یہی سبق دیا کہ اگر عورت تعلیم یافتہ ہو تو وہ نسلوں کو سنوار سکتی ہے۔ آج بھی ہمیں اسی وژن کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ تعلیم، بالخصوص خواتین کی تعلیم کو معاشرتی ترقی کا مرکز بنانا ہوگا۔ اس کے لیے صرف حکومت نہیں، بلکہ ہر فرد، ہر ادارہ، اور ہر برادری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ خواتین کی تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنائیں — تاکہ کل کا بھوپال ایک بار پھر علم و تہذیب کا روشن مینار بن سکے، جیسے سلطان جہاں بیگم کے عہد میں تھا۔
لہٰذا آیئے، ہم سب مل کر خاص کرکے علیگ برادری، اوقافِ شاہی کے تمام کارکنان یہ عہد کریں کہ ہم نہ صرف اپنی تاریخی وراثت کو سنبھالیں گے بلکہ اُس وژن کو بھی زندہ رکھیں گے جو ہمیں روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہی سلطان جہاں بیگم کو سچی خراجِ عقیدت ہوگی۔ ایک بار پھر ہم نواب سلطان جہاں بیگم کو اہل کی بھوپال کی جانب سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیںاور عہد کرتے ہیں کہ ایک ایسا بھوپال تعمیر کرنے میں اپنی صلاحیت صرف کریں گے جو علم، تہذیب، اور مساوات کا استعارہ بنے۔