حیدرآباد:22؍ستمبر:ہر اُردو کے ممتاز بین الاقوامی شاعر منظر بھوپالی کے ابتک تیرہ شعری مجموعے شائع ہوکر اُردو کے ادبی حلقے میں قبولیت حاصل کر چکے ہیں ۔منظر بھوپالی کی فکر و فن پر عالمی انتساب ،رسالہ انسانیت اور دوسرے ادبی رسالوں کے ذریعے خصوصی نمبرات بھی شائع ہو چکے ہیں لیکن ڈاکٹر مہتاب عالم کی مرتب کردہ کتاب اِعتبار ادب ان معنوں میں اہمیت کی حامل ہے کہ اس کی کتاب میں پروفیسر جگن ناتھ آزاد ،کیفی اعظمی ،علی سردار جعفری ،رئیس امروہوی ،ظفر اقبال ،پروفیسر عنوان چشتی ،جون ایلیا ،امجد اسلام ،ڈاکٹر بشیر بدر ،پروفیسر سحر انصاری ،ڈاکٹر تقی عابدی ،پروفیسر سید فضل امام ،پروفیسر اختر الوسع ،گلزار ،محسن بھوپالی ،رضا علی عابدی ،ظفر صہبائی،عارف عزیز ،اقبال مسعود ،ڈاکٹر انجم بارہ بنکوی ،ڈاکٹر سید فاروق ،ڈاکٹر عزیز اللہ شیرانی جیسے پچھتر سے زیادہ اُردو کے ان اہل قلم کے مضامین شامل ہیں جو تحریروں کو اُردو ادب میں اِعتبار و استناد حاصل ہے ۔نقیب ملت بیرسٹر اسد الدین اویسی نے حیدر آباد دارالسلام میں منعقدہ پر وقار تقریب میں منظر بھوپالی کی کتاب اِعتبار ادب کا اجراء کر نے کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منظر بھوپالی کی شاعری باد مخالف میں زندگی جینے کا حوصلہ عطا کرتی ہے ۔ان کی شاعری عوام و خواص میں اس لئے پسند کی جاتی ہے کہ وہ کہ ان کی شاعری مثل آئینہ بے ۔اس سے نئی نسل کو سیکھنا چاہئے ۔ممتاز صحافی سردار سلیم نے منظر بھوپالی کی کتاب اِعتبار ادب پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا منظر بھوپالی کا ادبی افق تک پہچنے کا یہ تسلسل ،کامیابیوں کا یہ سفر انہوں نے صحرا ادب کی خاک چھاننے کے بعد حاصل کیا ہے ۔منظر بھوپالی کی فکر و فن پر ڈاکٹر مہتاب عالم نے جو کتاب اِعتبار ادب کے نام سے مرتب کی ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔
اعتبار ادب کو مرتب کرنے والے ممتاز ادیب ڈاکٹر مہتاب عالم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منظر بھوپالی کے حصے میں شہرت کی وہ بلندی آئی ہے جو نصیب والوں کا حصہ ہوتی ہے ۔انہوں نے اقبال سے پیار کیا ،میر پر اِعتبار کیا،غالب کو اپنایا ،مخدوم پر فریفتہ ہوئے ،فیض سے فیضیاب ہوئے اور مشاعروں میں اس طرح کامیاب ہوئے کہ ملک و بیرون ملک میں ان کے نام کی دھوم مچ گئی ۔ان کی شاعری صرف اپنے عہد کی ترجمان نہیں ہے بلکہ اس میں آنے والی صدیوں کی بھی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔ممتاز ادیب و شاعر صلاح الدین نیّر نے منظر بھوپالی کی شاعری کو وقت کی آواز سے تعبیر کیا ۔