بھوپال:20؍اگست :(پریس ریلیز)دنیا ہر روز ترقی کی ایک نئی عبارت لکھ رہی ہے ۔ ملک روز بروز ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔حکومتوںنے بھی اپنا بجٹ بڑھا دیا ہے، یعنی ہر ذات برادری کی فلاح و بہبود اور ان کی ترقی کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں، کبھی وزیر اعلیٰ فنڈ سے تو کبھی مرکزی قیادت سے مختلف اسکیموں کے ذریعے لوگوں کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے لیکنSC/ST ، دلت مسلمانوں کو خاص طور پر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت محروم رکھا جارہا ہے،بدعنوانی (Corruption ) کی وجہ سے یہ سب کچھ بڑے بڑے نیتا اور لیڈران ڈکار رہے ہیں۔
ان تمام فوائد ، اسکیموں اور وعدوں سے دلت- پسماندہ مسلمان کو محروم رکھ کر ہر شعبے میں، ہر محاذ پر پیچھے کر دیا گیا ہے۔آج سے دو سال قبل حیدرآباد میں وزیر اعظم نے اپنی تقریر کے دوران پسماندہ مسلمانوں کو لے کر بات کہی تھی تب تو دیگر سیکولر پارٹیوں کو بھی پسماندہ مسلمانوں کی یاد آگئی تھی اور پارٹیوں نے اپنے سیاسی مفاد کے لئے پسماندہ مسلم (اوبی سی، دلت مسلم) کا نعرہ لگانا شروع کر دیا تھا لیکن انتخابات کے بعد اگر ہم پسماندہ او بی سی- دلت مسلمانوں کی حالت دیکھیں تو وہ آج بھی وہیں ہیں ان کی حالت میں کوئی بدلائو اور سدھار نہیں ہوا ہے اور پچھلے کچھ سالوں میں مآب لنچنگ، بلڈوزر وغیرہ جتنے بھی مظالم ہوئے اس کا شکار اکثر پسماندہ طبقہ ہی ہوا ہے۔بی جے پی سے تو کوئی امید ہی نہیں کی جاسکتی مگر نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی ہورہے مظالم پر خاموش کیوں ہیں؟ ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کر رہی ہیں۔یہ باعث تشویش اور سمجھ سے پرے ہے۔
اس وقت پورے ملک کی عوام اور خاص کر ایس سی /ایس ٹی، او بی سی طبقہ یہ سوال کر رہا ہے کہ انتخابات سے قبل تو ووٹ حاصل کرنے کے لئے بر سر اقتدار پارٹی نے تمام وعدے کئے تھے لیکن کیا ہماری حیثیت محض ووٹ بینک کی ہے؟ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں پسماندہ مسلم سماج کو لے کر جو فکر ظاہر کی تھی کیا وہ واقعی اپنی فکر میں سچے ہیں؟ کیا بھارت میں بسنے والے پسماندہ مسلمان وزیر اعظم کی ذمہ داری نہیں ہیں؟
اگر وزیر اعظم پسماندہ مسلم سماج کے تئیں اپنی فکر میں سچے ہیں تو انہیں فوراً ہی 1950کے پریسڈینشیل آرڈر (صدارتی حکم)کو ختم کرنا چاہئے۔آئین کا آرٹیکل (3)341، آئینی تفریق کو فوری طور پر ختم کرنا چاہئے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک جو بھی قانون بنا ہے اس سے سب سے زیادہ نقصان پسماندہ مسلم سماج کو ہی ہوتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب مودی اور ان کے وزراء پسماندہ مسلم سماج کے حامی نہیں ہے بلکہ محض چناوی مفاد کے لئے ان کا استعمال کرتے ہیں اور جب جب انتخابات ہوں گے اس طرح کے بیانات کا سلسلہ جاری رہے گا یہی چنائو ہتھکنڈہ ہوتا ہے اور SC/ST، دلت پسماندہ ہمیشہ ٹھگتے رہیں گے ،اس کا شکار ہوتے رہیں گے۔گذشتہ کچھ سالوں میں کیا کیا مظالم نہیں ڈھائے گئے پسماندہ مسلم سماج پر، پھر چاہے وہ مآب لنچنگ ہو،بے گناہوں کے گھر پر بلڈوزر چلانا ہو، بلقیس بانو کیس ہو، گجرات دنگے ہو، کھرگون دنگے ہو، نوح کا معاملہ ہو یا اتراکھنڈ معاملہ ہو ۔غرض یہ کہ ہر طرح سے پریشان کیا گیا ہے اور اس کے شکار مسلمانوں کا غریب طبقہ جو محنت کش اور رات دن روزی روٹی کے لئے مشقت کرتا ہے وہی ہوا ہے۔
چار صوبوں کے انتخابات سے قبل مسلمانوں کو تمام پارٹیوں سے مانگ کرنا چاہئے کہ وہ آبادی کے تناسب سے ٹکٹ تقسیم کریں، جس طرح ایس سی ایس ٹی کھل کر اپنی سیٹوں کے روٹیشن (Rotation) کی مانگ کر رہا ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی مطالبہ کرنا چاہئے۔اپنا کامن ایجنڈا بنا کر ریزرویشن کی بھی مانگ کرنا چاہئے جس سے کہ محض ایک ہی خاندان کو فائدہ نہ ملے۔ آئین کی دفعہ ۳۴۱؍ (۱۹۵۰ کے صدارتی آرڈر) کو ختم کرنے کیلئے ملکی سطح پر پر تحریک اور مومنٹ چلاکر اسے ختم کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے اور جو بھی نیتا یا پارٹی اسے ختم نہ کرنے کی بات کہے تو ان کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ خاص طور پر انتخابات میں منووادی پونجی وادی عناصر کا بائیکاٹ کریں۔ جب متحد ہوکر ان باتوں پر عمل کیا جائے گا تبھی مسلمان سرخ رو ہو سکتا ہے،ورنہ آج تک جس طرح آئین بچانے کے نام پر ، بھاجپا کو ہرانے کے نام پر، سیکولرزم کو بچانے کے نام پر مسلمانوں کا استحصال ہوتا رہا ہے آگے بھی ہوتا ہی رہے گااور مسلمان اپنے ہی ملک میں جس کے لئے آباواجداد نے ڈھیر ساری قربانیاں دیںظلم و زیادتی کے شکار ہوتے رہیں گے ۔بھارت میں منو وادی -پونجی وادی عناصر کی جڑیں بہت مضبوط ہیں کیونکہ یہ بھارت کی قدیم استحصالی فکر ہے جس نے ہر دور میں غریبوں اور پسماندہ لوگوں کا زبردست استحصال کیا ہے۔ آزادی کے بعد بھی یہ فکر سماج میں بڑھتی ہی رہی ہے بلکہ اس نے اپنی جڑیں سماج کے ہر طبقے میں مضبوط کر لی ہیں اور ہر سیاسی پارٹی اور سماجی تنظیموں میں اس منووادی اور پونجی وادی فکر کے حاملین نے شامل ہو کر پسماندہ اور غریبوں کا استحصال کیا ہے۔ اسلئے پسماندہ طبقات کو اس فکر کے حاملین عناصر کو نکال باہر کرنا ہوگا اور متحد ہوکر کامن ایجنڈا بنا کر محنت کرنا ہوگی۔
آج ضرورت اس بات کی ہے پسماندہ مسلم سماج کو ہی اپنی تعلیمی پسماندگی کو دور کرنا ہوگا تاکہ موجودہ اور آنے والی نسل اپنے حقوق کے لئے خود آواز اُٹھا سکے اور صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط ثابت کر سکے ورنہ اسی طرح ان کا استعمال یہ سیاسی پارٹیاں کر تیں رہیں گی۔اس کے لئے سب سے ضروری ہے قیادت کا ہونا،پسماندہ مسلم سماج کو سماجی اور سیاسی شعور کے ساتھ ساتھ اپنی خود کی قیادت کھڑی کرنا ہوگی، انتخابات سے قبل سیاسی پارٹیوں سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ دلت- پسماندہ مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیں اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر ان کے مقابلے کے لئے اپنا امیدوار کھڑا کریں تبھی اس ملک میں پسماندہ برادری سرخ رُو ہو سکتی ہے۔